تیونس میں سکیورٹی فورسز نے دو ہفتے قبل دارالحکومت کے ایک عجائب گھر پر ہونے والے حملے کے مرکزی ملزم کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تیونس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ٹی اے پی' نے اتوار کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ملزم ابو سخر لقمان اور آٹھ دیگر مبینہ شدت پسند الجزائر کی سرحد کے نزدیک غفسا کے علاقے میں کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کے دوران مارے گئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ لقمان کا گروہ 18 مارچ کو دارالحکومت کے 'بردو عجائب گھر' پر ہونے والے حملے میں ملوث تھا جس میں 21 غیر ملکی سیاح اور ایک تیونسی پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا تھا۔
حکام کے مطابق مذکورہ گروہ شمالی افریقہ میں 'القاعدہ' کی شاخ سے منسلک ہے اور تیونس میں اس سے قبل ہونے والی شدت پسندی کی بعض کارروائیوں میں بھی ملوث تھا۔
سکیورٹی اداروں کی کارروائی کے بعد تیونس کے وزیرِاعظم الحبیب الصید نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ حملوں میں ملوث کئی سرگرم دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جسے دہشت گردوں کو حکومت کی جانب سے عجائب گھر پر حملے کا واضح اور سخت جواب سمجھنا چاہیے۔
اتوار کو تیونس کے ہزاروں شہریوں نے شدت پسندی اور حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے خلاف ملک گیر احتجاج بھی کیا۔
دارالحکومت میں نکلنے والے مرکزی جلوس میں تیونس کے صدر اور وزیرِاعظم کے ساتھ فرانس اور اٹلی سمیت کئی ملکوں کے سربراہان بھی شریک ہوئےجنہوں نے حکومتی مرکز سے حملے کا نشانہ بننے والے عجائب گھر تک مارچ کیا۔
جلوس کی سکیورٹی کے لیے دارالحکومت میں پولیس اور فوج کے ہزاروں اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
تیونس کا شمار عرب دنیا کے سب سے زیادہ سیکولر ملکوں میں ہوتا ہے جہاں چار سال قبل 'عرب بہار' کے نتیجے میں خطے کے دیگر ملکوں – لیبیا، یمن اور شام - کے برعکس پرامن سیاسی تبدیلی آئی تھی۔
تیونس میں 2011ء کے عوامی انقلاب کے نتیجے میں آمر صدر زین العابدین بن علی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے تیونس کی سیاسی جماعتیں ایک نئے آئین کی اتفاقِ رائے سے منظوری کے بعد اس کے تحت آزادانہ انتخابات منعقد کرچکی ہیں۔