|
بھارتی سفارت کار جے پی سنگھ نے حال ہی میں طالبان عہدیداروں سے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کے دو ہفتے بعد ہی ایک سینئر امریکی عہدیدار نے افغانستان پر بات چیت کے لیے نئی دہلی کا دورہ کیا۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے بھارتی سیکریٹری خارجہ ونے کواترا پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں "اجتماعی مفادات کی حمایت میں ایک متفقہ سفارتی نقطہ نظر" تیار کریں۔
بھارتی پالیسی کے برعکس 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے واشنگٹن نے کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔
امریکہ نے افغان طالبان رہنماؤں کے خلاف پابندیوں اور انہیں عالمی سطح پر تنہا رکھنے کی پالیسی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ بعض تجزیہ کار امریکہ کے اس نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے اسے غیر مؤثر قرار دیتے ہیں۔
لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس کی پالیسی میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کہ طالبان خواتین کی تعلیم اور کام پر عائد پابندیوں کو واپس نہیں لے لیتے اور کابل میں ایک زیادہ جامع حکومت تشکیل نہیں پاتی۔
SEE ALSO: بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات؛ 2023 خارجہ محاذ پر پاکستان کے لیے کیسا رہا؟امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر ایک تحریری بیان میں کہا، "امریکہ افغانستان میں ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے گا جو ہمارے قومی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور افغان عوام کی حمایت کرتی ہیں۔"
بھارت کا مختلف سفارتی انداز
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کے مطابق بھارتی نقطہ نظر طالبان کو 20 سال کی خانہ جنگی کے بعد افغانستان میں استحکام کا ایک پیمانہ سمجھتا ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا، "بھارت کی نظر افغانستان کی معدنی دولت پر ہے اور وہ وسطی ایشیا تک تجارت اور توانائی کے لیے رسائی چاہتا ہے۔"
طالبان کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق طالبان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات میں بھارتی سفارت کار جے پی سنگھ اور دیگر ہندوستانی مندوبین نے "چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت بڑھانے" پر بھی بات کی۔
SEE ALSO: امریکہ کا افغان شہریوں کے لیے 12 ہزار اسپیشل امیگرینٹ ویزوں کا اضافہخیال رہے کہ چاہ بہار جنوب مشرقی ایران میں ایک بندرگاہ ہے۔ بھارت نے اس بندرگاہ کو تجارتی راہداری کے طور پر استعمال کرنے کی امید ظاہر کی ہے۔
بھارت کے مقابل امریکہ کو افغانستان کے حوالے سے فی الحال ایسی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تاہم امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھانے کی بھارتی ضرورت کے لیے احترام کا اظہار کیا ہے۔
انسدادِ دہشت گردی
افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات طویل عرصے سے امریکہ اور بھارت کے لیے بنیادی تشویش کا باعث رہے ہیں۔
امریکی حکام اکثر طالبان کو القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دینے کے خلاف متنبہ کرتے ہیں جو امریکی مفادات کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
نئی دہلی کو 'لشکرِ طیبہ' جیسے گروپوں اور بھارت کے خلاف ان کی مبینہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے خوف ہے۔
طالبان کا مؤقف ہے کہ وہ کسی بھی گروپ کو افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے لیے خطرے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور نہ دیں گے۔
SEE ALSO: داعش۔خراسان: ماسکو میں حملہ کرنے والوں کی تعریف، طالبان پر تنقیدبھارت کی او پی جندال گلوبل یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر راگھو شرما کے مطابق واشنگٹن اور نئی دہلی دونوں بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے میں دلچسپی کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی اس رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسیاں نہیں بنائی ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق جغرافیائی فاصلے کے باوجود امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈرونز اور سیٹیلائٹ تصاویر جیسی 'اوور دی ہورائزن' یعنی فضائی صلاحیتوں پر انحصار کرتا ہے۔
امریکہ کے مقابلے میں وسائل کی کمی کی وجہ سے بھارت افغانستان سے پیدا ہونے والے ممکنہ سیکیورٹی خطرات کو کم کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ براہِ راست رابطے کا انتخاب کرتا ہے۔
راگھو شرما کے مطابق رواں برس اپریل میں بھارت میں عام انتخابات کے بعد نئی دہلی طالبان کے سفارت کاروں کو تسلیم کر کے طالبان کو افغان حکمران کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے۔
ان کے بقول طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا بھارت کا اقدام خطے کے بڑے کرداروں کے اقدامات کی طرز کا ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان بھارت کابل کے ساتھ اچھے تعلقات کا ایک موقع دیکھ رہا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے جو کہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی۔
علاقائی مفادات
گزشتہ دو سالوں کے دوران امریکہ نے اپنی عوامی سفارت کاری کو بڑی حد تک افغان خواتین کے حقوق پر مرکوز رکھا ہے اور طالبان کو ان کی غلط جنسی پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تاہم، افغانستان کے آس پاس کے ممالک نے انسانی حقوق کے بارے میں خدشات کے باوجود اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک عملی رویہ اپنایا ہے۔
ابھی تک اگرچہ کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا۔ تاہم امارت اسلامیہ افغانستان (طالبان کا سرکاری نام) کے 38 ممالک میں سفارتی مشن ہیں۔ اس میں امریکہ کے قریبی اتحادی جیسے اٹلی، جاپان، ناروے اور ترکی بھی شامل ہیں جنہوں نے کابل میں اپنے سفارت کار تعینات رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف ایک وسیع بین الاقوامی اتفاق رائے موجود ہے۔
افغان طالبان امریکہ پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے افغانستان کو اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز میں نمائندگی سے محروم کر رکھا ہے۔