|
واشنگٹن ڈی سی -- بھارت میں نفرت پر مبنی جرائم پر نظر رکھنے والی امریکی تنظیم کے مطابق انتخابات کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی رہنماؤں نے سینکڑوں انتخابی ریلیوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔
تنظیم 'ہندوتوا واچ' کی رپورٹ میں 19 اپریل سے مرحلہ وار شروع ہونے والے انتخابات کے دوران ایسے سینکڑوں مواقع کی نشان دہی کی گئی ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) رہنماؤں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقاریر کیں۔
واضح رہے کہ 'ہندوتوا' سے مراد بی جے پی کا ہندو قوم پرست نظریہ ہے۔
امریکی تنظیم کے مطابق ایسی تقریریں صرف وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے ہی سامنے نہیں آ رہیں بلکہ مسلسل تیسری حکومتی میعاد کی خواہش مند بی جے پی کے سرکردہ رہنما بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
تنظیم کے بانی رقیب حمید نائیک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اشتعال انگیز تقریریں کرنے والوں میں وزیرِ داخلہ امت شاہ، وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ، بی جے پی کے صدر جگت پرکاش نڈا اور کئی بڑی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کے چھ ہفتوں پر محیط انتخابات میں بی جے پی کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کا سامنا ہے۔ انتخابات میں ساتویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ یکم جون کو ہو گی اور نتائج کا اعلان چار جون کو کیا جائے گا۔
وزیرِ اعظم مودی کا متنازع بیان
وزیرِ اعظم مودی نے 21 اپریل کو ایک انتخابی ریلی کے دوران کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ بھارت کو 'دراندازوں' اور 'زیادہ بچے پیدا کرنے والوں' میں تقسیم کر دے گی۔
خیال رہے کہ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست 'درانداز' لفظ کو بھارت کے تمام 20 کروڑ مسلمانوں کو باہر کے لوگ قرار دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وزیرِ اعظم مودی کے اس بیان پر کانگریس اور مسلم تنظیموں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔
'ہندوتوا واچ' کے بانی حمید نائیک ایک جلاوطن کشمیری مسلم صحافی ہیں جنہوں نے 2021 میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ تنظیم بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور نفرت پر مبنی جرائم کے اعداد و شمار جمع کرنے کے حوالے سے مستند سمجھی جاتی ہے۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات: مذہبی تقسیم اور ملازمتوں میں مشکلات کے باوجود نوجوان ووٹرز کا مودی کی جانب جھکاؤحمید نائیک کہتے ہیں کہ اس مرتبہ بھارت میں انتخابی مہم کے دوران جس طرح توہین آمیز الفاظ استعمال کیے گئے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "میں نے قومی سطح پر اس قسم کی اشتعال انگیز، نفرت انگیز انتخابی مہم کو مسلم اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔"
نئی دہلی میں بی جے پی کے ترجمان اور واشنگٹن میں بھارت کے سفارت خانے نے تبصرے کے لیے وائس آف امریکہ کی جانب سے بار بار ای میل کی گئی درخواستوں کا جواب نہیں دیا ہے۔ وی او اے نے تبصرے کے لیے بی جے پی کے لیے امریکہ میں لابی کرنے والی تنظیم سے بھی رابطہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیرِ اعظم مودی نے ایک انٹرویو کے دوران 'درانداز' والے ریمارکس کی وضاحت کی کوشش کی۔
مودی نے ایک مقامی نشریاتی ادارے 'نیوز 18' سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہا انہوں نے کوئی ایسی بات کی تھی کہ "مسلمانوں کے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ ’’میں ہندو مسلم نہیں کروں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "میں مسلمانوں کی ثقافت اور کمیونٹی سے بہت اچھی طرح واقف ہوں، میں نے کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کے زیادہ بچے ہیں۔"
SEE ALSO: بھارتی انتخاب: پانچویں مرحلے کی پولنگ میں بھی کم ٹرن آؤٹمودی کے اس بیان کے بعد 'ہندوتوا واچ' نے کم از کم 10 ریلیوں کو دستاویز کیا ہے جہاں وزیرِ اعظم مودی نے باری باری ووٹروں کو اپنی مخالف سیاسی جماعت کانگریس کے مبینہ منصوبوں کے بارے میں متنبہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق مودی نے پھر دہرایا کہ کانگریس مسلمانوں میں قومی دولت کو دوبارہ تقسیم کرنے، انہیں اقلیتی کوٹہ دینے اور اُن کے دور میں بنے ہوئے ایک ہندو مندر کو بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک "کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس" میں جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر میلان ویشنو کہتے ہیں کہ مسلم مخالف بیان بازی بی جے پی کی ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کی حکمتِ عملی کا اہم حصہ ہے۔
وشنو نے کہا کہ مودی نے 2002 تک جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے پرتشدد ہندو مسلم فسادات کے دوران اشتعال انگیز بیان بازی سے گریز نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے 2019 کے انتخابات میں مسلم مخالف بیان بازی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔