مس رائس کا کہنا تھا کہ اگر ایران معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے ایران کے ساتھ کیا گیا کوئی بھی حتمی معاہدہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تہران کے خلاف تعزیرات خودبخود قابل عمل ہو جائیں گی۔
امریکہ کی مشیر برائے قومی سلامتی سوزین رائس نے کہا ہے کہ جوہری پروگرام کو منجمد کرنے کے معاہدے کے باوجود نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کی صورت میں ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
سی بی سی نیوز کے پروگرام ’’60 منٹس‘‘ میں ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ تہران پر ایک مرتبہ نرم کی گئی اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کرنا مشکل ہو گا۔
مس رائس کا کہنا تھا کہ اگر ایران معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے ایران کے ساتھ کیا گیا کوئی بھی حتمی معاہدہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تہران کے خلاف تعزیرات خودبخود قابل عمل ہو جائیں گی۔ اس میں گزشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والا عارضی معاہدہ شامل نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہم ایسا کوئی معاہدہ تیار نہیں کرتے نہ ہی تسلیم کرتے ہیں جس میں ہم اس بات کی تصدیق نہ کر سکیں کہ وہ (ایران) حقیقاً کیا کر رہے ہیں۔ اور اگر وہ (جوہری ہتھیار بناتے ہوئے) پکڑے جاتے ہیں تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان پر دوبارہ دباؤ بڑھایا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’خود بخود نافذ العمل‘‘ ہونے والا معاہدہ تاحال طے نہیں پایا اور موجودہ انتظامات کے تناظر میں حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ابھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
’’ہم نے ابھی قرارداد تیار نہیں کی ہے۔ لیکن یہ کافی حد تک قابل عمل ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران کو اس پوزیشن میں ڈالا جائے کہ وہ پوشیدہ بم کی دوڑ میں لگ جائے۔‘‘
گزشتہ ماہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے ایران کے ساتھ ایک عبوری معاہدہ کیا تھا جس کے تحت وہ اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا اور اس کے بدلے اس پر عائد بعض بین الاقوامی پابندیاںچھ ماہ کے لیے نرم کی جائیں گی۔
اس معاملے پر اوباما انتظامیہ اور کانگریس کے درمیان اختلاف بھی پایا جاتا ہے، متعدد قانون ساز چاہتے ہیں کہ ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔
سی بی سی نیوز کے پروگرام ’’60 منٹس‘‘ میں ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ تہران پر ایک مرتبہ نرم کی گئی اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کرنا مشکل ہو گا۔
مس رائس کا کہنا تھا کہ اگر ایران معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے ایران کے ساتھ کیا گیا کوئی بھی حتمی معاہدہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تہران کے خلاف تعزیرات خودبخود قابل عمل ہو جائیں گی۔ اس میں گزشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والا عارضی معاہدہ شامل نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہم ایسا کوئی معاہدہ تیار نہیں کرتے نہ ہی تسلیم کرتے ہیں جس میں ہم اس بات کی تصدیق نہ کر سکیں کہ وہ (ایران) حقیقاً کیا کر رہے ہیں۔ اور اگر وہ (جوہری ہتھیار بناتے ہوئے) پکڑے جاتے ہیں تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان پر دوبارہ دباؤ بڑھایا جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’خود بخود نافذ العمل‘‘ ہونے والا معاہدہ تاحال طے نہیں پایا اور موجودہ انتظامات کے تناظر میں حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ابھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
’’ہم نے ابھی قرارداد تیار نہیں کی ہے۔ لیکن یہ کافی حد تک قابل عمل ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران کو اس پوزیشن میں ڈالا جائے کہ وہ پوشیدہ بم کی دوڑ میں لگ جائے۔‘‘
گزشتہ ماہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے ایران کے ساتھ ایک عبوری معاہدہ کیا تھا جس کے تحت وہ اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا اور اس کے بدلے اس پر عائد بعض بین الاقوامی پابندیاںچھ ماہ کے لیے نرم کی جائیں گی۔
اس معاملے پر اوباما انتظامیہ اور کانگریس کے درمیان اختلاف بھی پایا جاتا ہے، متعدد قانون ساز چاہتے ہیں کہ ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔