واشنگٹن —
یورپی یونین نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر گزشتہ ماہ طے پانے والے عبوری معاہدے پر عمل درآمد سے قبل ضروری تفصیلات طے کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے ایک ترجمان نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ فریقین نے معاہدے کی جزیات سے متعلق "تفصیلی گفت و شنید" کی ہے۔
خیال رہے کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرنے والی چھ عالمی طاقتوں کے نمائندوں اور ایرانی اہلکاروں نے مذکورہ معاہدے پر عمل درآمد کا طریقہ کار طے کرنے کی غرض سے رواں ہفتے ویانا میں چار روز تک مذاکرات کیے تھے۔
یہ مذاکرات جنیوا میں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے 'آئی اے ای اے' کے دفتر میں ہوئے تھے جسے فریقین نے ایران کی جانب سے اس عبوری معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کا مجاز قرار دیا ہے۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں یہ واضح ہوسکے گا کہ عبوری معاہدے کے تحت ایران کب یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی روکے گا اور اس کے جواب میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں کب نرم کی جائیں گی۔
یورپی یونین کے ترجمان کے مطابق مذاکرات کے نتیجے میں یہ واضح ہوا ہے کہ "معاہدے کے تیکنیکی پہلووں کی پیچیدگی کے سبب" ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
کیتھرین ایشٹن کے ترجمان نے امید ظاہر کی کہ معاہدے کے تیکنیکی پہلووں پر بات چیت کا سلسلہ جلد دوبارہ شروع ہوگا تاکہ معاہدے کو قابلِ عمل منصوبے کی شکل دی جاسکے۔
کیتھرین ایشٹن چھ عالمی طاقتوں – امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی - کی مشترکہ نمائندہ ٔ خصوصی کی حیثیت سے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرتی رہی ہیں۔
اس معاہدے کے تحت ایران اور عالمی طاقتوں نے تہران حکومت کے جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے لیے چھ ماہ کا وقت مقرر کیا ہے جس کے دوران میں ایران پر سے بعض پابندیاں نرم کی جائیں گی جس کے جواب میں ایرانی حکومت یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی روک دے گی اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے گی۔
چوبیس نومبر کو طے پانے والے اس معاہدے سے تہران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں اور ایرانی حکومت کے مابین کوئی مستقل سمجھوتہ ہونے کی امید روشن ہوگئی ہے۔
مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ایران اپنے سول جوہری پروگرام کی آڑ میں نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایرانی حکومت اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے ایک ترجمان نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ فریقین نے معاہدے کی جزیات سے متعلق "تفصیلی گفت و شنید" کی ہے۔
خیال رہے کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرنے والی چھ عالمی طاقتوں کے نمائندوں اور ایرانی اہلکاروں نے مذکورہ معاہدے پر عمل درآمد کا طریقہ کار طے کرنے کی غرض سے رواں ہفتے ویانا میں چار روز تک مذاکرات کیے تھے۔
یہ مذاکرات جنیوا میں جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے 'آئی اے ای اے' کے دفتر میں ہوئے تھے جسے فریقین نے ایران کی جانب سے اس عبوری معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کا مجاز قرار دیا ہے۔
ان مذاکرات کے نتیجے میں یہ واضح ہوسکے گا کہ عبوری معاہدے کے تحت ایران کب یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی روکے گا اور اس کے جواب میں اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں کب نرم کی جائیں گی۔
یورپی یونین کے ترجمان کے مطابق مذاکرات کے نتیجے میں یہ واضح ہوا ہے کہ "معاہدے کے تیکنیکی پہلووں کی پیچیدگی کے سبب" ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
کیتھرین ایشٹن کے ترجمان نے امید ظاہر کی کہ معاہدے کے تیکنیکی پہلووں پر بات چیت کا سلسلہ جلد دوبارہ شروع ہوگا تاکہ معاہدے کو قابلِ عمل منصوبے کی شکل دی جاسکے۔
کیتھرین ایشٹن چھ عالمی طاقتوں – امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی - کی مشترکہ نمائندہ ٔ خصوصی کی حیثیت سے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کرتی رہی ہیں۔
اس معاہدے کے تحت ایران اور عالمی طاقتوں نے تہران حکومت کے جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے لیے چھ ماہ کا وقت مقرر کیا ہے جس کے دوران میں ایران پر سے بعض پابندیاں نرم کی جائیں گی جس کے جواب میں ایرانی حکومت یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی روک دے گی اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے گی۔
چوبیس نومبر کو طے پانے والے اس معاہدے سے تہران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں اور ایرانی حکومت کے مابین کوئی مستقل سمجھوتہ ہونے کی امید روشن ہوگئی ہے۔
مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ایران اپنے سول جوہری پروگرام کی آڑ میں نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایرانی حکومت اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔