|
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی سرزمین پر ایران کے ڈرون اور میزائل حملوں کے کسی مربوط جواب کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اسرائیل پر بھی زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لے اور کسی وسیع تر علاقائی تنازعے کو بھڑکانے سے گریز کرے۔
قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ایک بیان میں کہا کہ صدر جو بائیڈن "گروپ آف سیون سمیت اتحادیوں اور شراکت داروں، اور کانگریس میں دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ کسی مربوط جامع ردعمل پر کام کر رہے ہیں۔"
سلیوان نے کہا کہ امریکہ آنے والے دنوں میں ایران کے میزائل اور ڈرون پروگرام، پاسداران انقلاب اور ایران کی وزارت دفاع کی مدد کرنے والے اداروں سمیت اس پر نئی پابندیاں عائد کرے گا۔
کربی نے مزید کہا کہ امریکہ پورے مشرق وسطیٰ میں فضائی اور میزائل سے دفاع اور قبل از وقت وارننگ سسٹم کو مربوط بنانے کو تقویت دے گا
SEE ALSO: ایران کسی معمولی کارروائی کا بھی سخت اور دردناک جواب دے گا: صدر رئیسیبائیڈن کے مشیروں نے بار بار ’ڈی اسکیلیشن‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے منگل کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ صدر "ایران کے ساتھ جنگ نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ تنازع کو وسیع یا گہرا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے"۔
اسی اثنا میں اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران کے حملے کا جواب دینے کے لیے جوابی کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن اسرائیلی حکام نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب اور کیسے حملہ کر سکتے ہیں۔
اسرائیل کے فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہلیوی نے کہا ہےکہ ہم اس کے (صورت حال کے) مطابق اپنے ردعمل کا انتخاب کریں گے۔
ایرانی سرزمین پر براہ راست اسرائیلی حملہ کشیگی میں ایک اور بڑے اضافے کے مترادف ہو گا، تہران پہلے ہی اس طرح کے کسی جوابی حملے کا سخت جواب دینے کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔
تہران نے اپنے حملے میں 300 سے زیادہ ڈرون، بیلسٹک میزائل اور کروز میزائل لانچ کیے تھے، جن میں سے بیشتر کو اسرائیلی فوج نے امریکی اور علاقائی اتحادیوں کی مدد سے روک لیا تھا، اور محض ایک اسرائیلی اڈے کو صرف معمولی سا نقصان پہنچا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایران نے ہلاکتوں کو محدود کرنے کے لیے حملوں کو ناپ تول کر کیا ہو یا ٹیلی گراف ایڈوانس نوٹس دیا ہو، جس کی وائٹ ہاؤس تردید کرتا ہے۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایڈوانس نوٹس دیا تھا
اس سے قبل رائٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ترکیہ، اردن اور عراق کے حکام نے اتوار کو کہا تھا کہ ایران نے ہفتے کے روز اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے سے چند دن پہلے ایک وسیع نوٹس دیا تھا تاکہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور تنازعے میں تیزی سے اضافے کو روکا جا سکے، لیکن ایک امریکی اہل کار نے اس کی تردید کی تھی۔
اردن کے ایک سینئر اہل کار نے کہا کہ ایران نے بدھ کے روز تہران میں عرب سفیروں کو طلب کیا تھا تاکہ انہیں حملہ کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا جا سکے، تاہم اس نے تخصیص سے یہ نہیں بتایا کہ ایسا کس وقت ہو گا۔
SEE ALSO: ایران کے خلاف جوابی کارروائی یا غزہ پر حملہ، کیا اسرائیل کو کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا؟ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے اتوار کے روز کہا کہ ایران نے پڑوسی ممالک اور اسرائیل کے اتحادی امریکہ کو اس بارے میں 72 گھنٹے کا نوٹس دیا ہے کہ وہ حملہ شروع کر دے گا، ایک ایسا اقدام جس سے وہ بڑی حد تک حملے کو روک سکیں گے۔
تاہم، امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ایک سینئر اہل کار نے امیرعبداللہیان کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن نے سوئس ثالثوں کے ذریعے ایران سے رابطہ کیا تھا لیکن اسے(ایران کی جانب سے) 72 گھنٹے کا نوٹس نہیں ملا۔ "
امریکی اہل کار نے کہا "یہ قطعی طور پر درست نہیں ہے،" انہوں نے کوئی اطلاع نہیں دی اور نہ ہی انہوں نے اس بارے میں کچھ کہا کہ یہ،یہ ٹارگٹ ہوں گے، لہٰذا انہیں خالی کر دیں۔"
بائیڈن انتظامیہ کے اہل کار نے، جن کا نام رائٹرز نے نہیں بتایا، مزید کہا کہ حملے شروع ہونے کے بعد ہی تہران نے امریکہ کو ایک پیغام بھیجا تھا۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ایران حملے کی ناکامی پر اپنی خجالت چھپانے کے لیے نوٹس دینے کی بات کر رہا ہے۔
بہرحال ڈرونز، کروز میزائلوں اور بیلسٹک میزائلوں کے حملے سے خوفناک جانی نقصان کا خطرہ تھا اور بڑے پیمانے پر اسرائیلی اور امریکی جوابی کارروائی شروع ہو سکتی تھی جو علاقائی انتشار کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔
اسرائیل کی بار الان یونیورسٹی میں پولیٹیکل اسٹڈیز کے سربراہ جوناتھن رین ہولڈ کا خیال ہےکہ اسرائیل کی جوابی کارروائی عام شہریوں کو مارے بغیر ایرانی سرزمین کو نشانہ بنائے گی۔
انہوں نے VOA کو بتایا،کہ یہ حملہ کسی بھی واضح طور پر علامتی سرکاری عمارت کو نشانہ بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔
بقول ان کے"ایسا کرنا (ایرانی) حکومت کو شرمندہ کر سکتا ہے اور انہیں یہ محسوس کروا سکتا ہے کہ انہیں (بھی) اس میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔"
رین ہولڈ نے کہا کہ ایرانی حملوں کو "بہت، بہت ہی احتیاط سے کیلکولیٹ کیا گیا تھا" اور انہوں نے پیش گوئی کی کہ کوئی ممکنہ اسرائیلی جوابی حملہ بھی اسی طرح ناپ تول کر کیا جائے گا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود، وہ آسانی سے خطرناک غلط حساب کتاب کا باعث بن سکتے ہیں۔ یا اسرائیل ایرانی اہل کاروں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے خفیہ کارروائیوں کا انتخاب کر سکتا ہے۔