|
نئی دہلی __اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور ریاست اتراکھنڈ کی پولیس نے ایک حکم جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہوٹلوں، ڈھابوں اور خوانچوں کے مالکان اپنی دکانوں پر جلی حروف میں اپنا اور ملازمین کے نام درج کریں تاکہ ان کی مذہبی شناخت واضح ہو سکے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ہندو مذہب کی ’کانوَڑ یاترا‘ کی پاکیزگی کو برقرا رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔
اس حکم پر حزب اختلاف کے رہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانون دانوں کی جانب سے سخت احتجاج کیا جا رہا ہے۔
ہریدوار کے ’سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس‘ (ایس ایس پی) پرمود سنگھ ڈوبال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام ہوٹلوں، ڈھابوں اور ریڑھی مالکوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی دکانوں پر مالک کا نام، کیو آر کوڈ اور موبائل نمبر درج کریں۔ ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور ان کی دکانیں کانوڑ روٹ سے ہٹا دی جائیں گی۔‘
یہ حکم ہندی مہینہ ساون میں ہونے والے ہندوؤں کے ایک مذہبی تہوار کے موقع پر نکلنے والی ’کانوَڑ یاترا‘ کے پیش نظر جاری کیا گیا ہے۔
اس موقعے پر ہندو عقیدت مند اتراکھنڈ کے ہریدوار جاتے ہیں اور وہاں سے دریائے گنگا کا پانی لاکر مقامی شیو مندروں میں چڑھاتے ہیں۔
یہ یاترا 22 جولائی سے شروع ہونے والی ہے اور اس کا راستہ 240 کلومیٹر لمبا ہے۔ یاترا کے راستے میں پڑنے والے علاقوں میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 40 فی صد ہے۔
مغربی اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کے پولیس سربراہ ابھیشیک سنگھ نے مذکورہ حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یاتری شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہوں اور نظم و نسق کی صورت حال برقرار رہے۔
یاد رہے کہ اس یاترا کے دوران ہندو عقیدت مند صرف ساگ سبزی کھاتے اور گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔
قبل ازیں مظفر نگر کے ایک ہندو مذہبی رہنما سوامی یشویر مہاراج نے کہا تھا کہ بڑی تعداد میں مسلمان اپنی مذہبی شناخت چھپا کر ہندو نام سے ہوٹل ڈھابے چلا رہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان اوربھارت میں اقلیتوں،سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے حقوق کی پامالی پرامریکی محکمہ خارجہ کا اظہارتشویشان کے بقول مظفر نگر کی ضلع انتظامیہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ تمام مسلمان اپنے ہوٹلوں، ڈھابوں، چائے کی دکانوں اور پھل و سبزی کی ریڑھیوں پر جلی حروف میں اپنا نام لکھیں گے۔ مذکورہ حکم اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔
اترپردیش کے ایک وزیر کپل دیو اگروال نے الزام عاید کیا کہ مسلمان ویشنو ڈھابہ بھنڈار، شکومبھری دیوی بھوجنالیہ اور شدّھ بھوجنالیہ جیسے نام رکھ کر گوشت سے تیار غذا فروخت کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس حکم کے بعد بہت سے مسلمانوں نے اپنے ہوٹلوں، ڈھابوں اور پھل و سبزی کی دکانوں پر موٹے حروف میں اپنا نام لکھ دیا ہے۔
اس حکم سے متعلق مظفر نگر پولیس سربراہ کی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد حزب اختلاف، انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانون دانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
احتجاج کے بعد پولیس نے جمعرات کو اپنی ایڈوائزری میں ترمیم کرتے ہوئے کہا کہ لوگ رضاکارانہ طور پر اپنے نام لکھ سکتے ہیں۔
اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے سب سے پہلے اس پر احتجاج کیا اور اسے سماجی جرم قرار دیا۔
انھوں نے اسے سماج کو تقسیم کرنے والا حکم قرار دیتے ہوئے عدلیہ سے اپیل کی کہ وہ از خود نوٹس لے کر اس پر فوری کارروائی کرے۔
SEE ALSO: الیکشن سے قبل ہندوتوا کا نظریہ پیش کرنے والے ساورکر پر بننے والی فلم ریلیز؛ کیا نئی بحث کا آغاز ہو گا؟’یہ سلسلہ رکے گا نہیں‘
اہم مسلم شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس ہدایت پر سخت اعتراض کیا جا رہا ہے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) کے صدر، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا ہے کہ یہ ہندوتو کی سیاست کا ایک حصہ ہے اور یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے سینے پر لکھیں کہ وہ مسلمان ہیں اور اپنے گھروں پر مسلم شناخت آویزاں کریں۔
ان کے بقول ابھی صرف کھانے پینے کی دکانوں کے لیے حکم جاری کیا گیا ہے آگے چل کر دوسری دکانوں کے لیے بھی ایسا حکم جاری ہو سکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ جتنے بڑے علاقے کے لیے یہ حکم جاری کیا گیا ہے وہ غزہ کے برابر ہے اور اگر یہ چیز عام ہو جائے، قابل قبول ہو جائے اور لوگ چپ رہیں تو یہ سلسلہ لامتناہی ہو جائے گا اور اس کا کہیں خاتمہ نہیں ہوگا۔ نہ صرف پوری ریاست میں بلکہ بی جے پی اقتدار والی تمام ریاستوں میں ایسا حکم جاری ہوگا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنے گھروں پر نشانی لگائیں۔ گجرات اور دہلی کے فسادات میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فساد سے قبل مسلمانوں کے گھروں پر نشان لگا دیے گئے تھے اور انہی مکانوں پر حملے ہوئے تھے۔
انھوں نے حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں کے اس اندیشے کی تائید کی کہ اس سے مسلم دکان داروں پر حملے اور تشدد کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔
SEE ALSO: بھارت: گئو رکھشا سے کرکٹ کی گیندوں کی صنعت کس طرح متاثر ہو رہی ہے؟کانگریس پارٹی کے میڈیا اور پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیڑہ نے کہا کہ یہ حکم مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ہے۔ یہ ان کا اقتصادی بائیکاٹ ہے۔ جو لوگ پہلے اس کا فیصلہ کرتے تھے کہ لوگ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں، اب اس کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ کس سے خریدیں اور کس سے نہ خریدیں۔
حکومتی اتحادیوں کی مخالفت
مرکز میں حکمراں اتحاد کی حلیف جماعتوں جنتا دل یو (جے ڈی یو) اور راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
جے ڈی یو کے ترجمان کے سی تیاگی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ یاترا اترپردیش، بہار، راجستھان اور اتراکھنڈ کے مختلف علاقوں سے گزرتی ہے لیکن کبھی بھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوا۔
بقول ان کے اگر کوئی غیر سماجی شخص صورت حال کو خراب کرنے کی کوشش کرے تو پولیس اس سے نمٹنے کی اہل ہے۔ اگر ہم مذہب کی بنیاد پر شناخت پر زور دیں گے تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہو گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ یاترا کے راستے میں 30 سے 40 فی صد تک مسلمانوں کی آبادی ہے اور مسلم دستکار کانوڑ بناتے ہیں اور بہت سے علاقوں میں مسلمان یاتریوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔
رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس حکم کو چھواچھوت پھیلانے والا قرار دیا۔ انھوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی دفعہ 17 چھواچھوت پر پابندی لگاتی ہے۔ یہ حکم دستور کی دفعہ 17،19 اور 21 کی خلاف ورزی ہے۔
بی جے پی رہنما اور سابق مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے بھی اس حکم کی مخالفت کی۔ انھوں نے بھی اسے چھوا چھوت کو بڑھاوا دینے والا حکم قرار دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بی جے پی کا دفاع
بی جے پی نے اس حکم کا دفاع کیا اور احتجاج کرنے پر حزب اختلاف کی مذمت کی ہے۔
پارٹی ترجمان شہزاد پونہ والا نے سوال کیا کہ مسلم مذہبی جذبات کی خاطر حلال سرٹی فکیٹ ٹھیک ہے، اس سے جذبات مجروح نہیں ہوتے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہبی یاترا کے دوران ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ کیا کھائے گا۔ اگر مسلمان صرف حلال والی دکان پر کھا سکتے ہیں تو ہندو صرف اپنی پسند کی دکانوں پر کیوں نہیں کھا سکتے۔
قانونی ماہرین نے بھی اس حکم کی مخالفت کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ زبانی حکم ہے اس لیے اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ان کے مطابق چیلنج کرنے کی صورت میں پولیس کہہ سکتی ہے کہ اس کے حکم کو مسخ کیا گیا ہے۔ تحریری حکم ہوتا تو چیلنج کیا جا سکتا تھا۔
جب کہ اترپردیش کے سابق انسپکٹر جنرل اور سیاست داں و سماجی کارکن ایس آر داراپوری نے ایک میڈیا ادارے ’دی اسکرول‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زبانی حکم کو چیلنج کرنے پر پولیس مکر سکتی ہے۔ تاہم دیگر قانونی ماہرین اس حکم کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔