وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین ممکن ہے کہ اگلے سال کے شروع تک بھی نہ بن پائے۔ اور جب بن جائے گی تو ہوسکتا ہے کہ محض چند ماہ کے لیے موثر ہو۔
انھوں نے ان خیالات کا اظہار امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر فاؤچی امریکہ میں وبائی امراض کی روک تھام کے ادارے کے سربراہ ہیں۔
انھوں نے کہا ہے کہ وہ محتاط طور پر امید کرتے ہیں کہ سائنس دان کرونا وائرس کی موثر ویکسین اگلے سال کی ابتدا تک بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انھیں توقع ہے کہ تب تک ویسکین کی کروڑوں خوراکیں دستیاب ہوں گی۔ لیکن اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ماہرین کو یہ بات یقینی بنانے میں مہینوں لگ سکتے ہیں کہ کوئی ویکسین واقعی موثر ہے۔
ڈاکٹر فاؤچی نے خبردار کیا کہ ممکن ہے کہ نئی ویکیسن طویل عرصے کے لیے تحفظ فراہم نہ کرسکے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ دوسرے کرونا وائرسز کو دیکھیں تو ان میں سب سے عام وہ ہے جو عام ٹھنڈ لگنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کی ویکسین تین سے چھ ماہ تک بیماری سے بچاتی ہے اور کبھی پورا سال محفوظ نہیں رکھتی۔ یہ دیرپا تحفظ نہیں دیتی۔
نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے کرونا وائرس کی ممکنہ ویکیسن کی بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے پانچ دواساز اداروں کو منتخب کیا ہے۔ ان میں میساچوسیٹس میں قائم موڈرنا، آکسفرڈ یونیورسٹی کی شراکت میں کام کرنے والی آسٹرا زینیکا، جانسن اینڈ جانسن، مرک اور فائزر شامل ہیں۔
اخبار کے مطابق، ایک سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس چند ہفتوں میں اس بارے میں فیصلے کا اعلان کرے گا۔
دریں اثنا، منی سوٹا یونیورسٹی کے ماہرین نے کہا ہے کہ ہائیڈروآکسی کلوروکوئن ان صحت مند افراد کو بیمار ہونے سے نہیں بچاتی جو کرونا وائرس کے مریض سے رابطے میں آچکے ہوں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار اس دوا کو 'گیم چینجر' قرار دے کر اس کی تعریف کرچکے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی کرونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے اس دوا کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ دوا بنیادی طور پر ملیریا کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیشن میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کلینیکل تجربات میں 800 ایسے افراد کو ہائیڈروآکسی کلوروکوئن دی گئی جو کرونا وائرس میں مبتلا کسی مریض سے مل چکے تھے۔ ان تجربات میں دوا قطعی غیر موثر ثابت ہوئی۔
اس سے پہلے بعض ڈاکٹر کہہ چکے ہیں کہ اس دوا کے سنگین مضر اثرات ہوسکتے ہیں جن میں دھڑکن کا متاثر ہونا شامل ہے اور موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کے علاج کے لیے تجربات میں اس دوا کا استعمال بند کرچکی ہے، جبکہ فرانس نے اس کے استعمال پر پابندی لگادی ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام اور ان سے تحفظ کے ادارے نے کہا ہے کہ اپریل میں اسپتالوں کے ایمرجنسی رومز میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ ایسا اس عرصے میں ہوا جب ملک میں کرونا وائرس کی وبا اپنے عروج پر تھی۔
ادارے نے بدھ کو اس بارے میں رپورٹ جاری کی جس کے مطابق 14 سال سے کم کے بچوں، خواتین اور ملک کے شمال مشرقی حصے میں یہ کمی زیادہ واضح تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ دل کے دورے سمیت سینے میں درد کی شکایت کرنے والے لوگوں اور دمے میں مبتلا بچوں کی تعداد بھی کافی کم رہی۔
کرونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض امریکہ میں ہیں جن کی تعداد 18 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ یہاں ایک لاکھ سات ہزار اموات ہوچکی ہیں جو کسی بھی دوسرے ملک سے تین گنا زیادہ تعداد ہے۔