بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کو سری نگر میں ان کے گھر کے قریب حیدر پورہ کے علاقے میں جمعرات کی علی الصباح سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے مرحوم کی میت تحویل میں لے کر اہلِ خانہ کو تدفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور اپنے تئیں انہیں سپردِ خاک کیا۔
سید گیلانی کے صاحبزادے ڈاکٹر نعیم گیلانی نے کہا ہے کہ اُن کے والد نے وصیت کی تھی کہ انہیں سری نگر کے مزارِ شہداء میں دفن کیا جائے لیکن حکام نے اس کی اجازت نہیں دی۔
ان کے بقول، "لواحقین نے تدفین کے لیے جمعرات کی صبح تک کی مہلت طلب کی لیکن پولیس حکام نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کر دی کہ سید گیلانی کو ایک گھنٹے کے اندر اندر مقامی قبرستان میں دفن کیا جائے اور اگر ایسا ہہ ہوا تو وہ خود ان کی تجہیز و تکفین کریں گے۔"
اہلِ خانہ کے مطابق پولیس نے جمعرات کی صبح تین بجے کے قریب میت کو اپنی تحویل میں لیا اور اس دوران گھر کی خواتین کے مزاحمت کرنے پر انہیں دھکے بھی دیے گئے۔
پولیس عہدے دار وجے کمار نے سید گیلانی کے اہلِ خانہ کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
وجے کمار کا کہنا تھا کہ "حقیقت یہ ہے کہ پولیس نے اُن کی میت کو گھر سے قبرستان تک لے جانے کو آسان بنایا کیونکہ یہ خدشہ تھا کہ شر پسند عناصر صورتِ حال کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔"
SEE ALSO: سید علی گیلانی: کشمیر میں بھارت مخالف مزاحمت کا ایک بابنعیم گیلانی کے بقول "ابا جان کو کس نے غسل دیا، اُن کےجنازے میں کون شامل ہوا اور ان کی کس نے تدفین کی؟ اس کا ہمیں بالکل پتا نہیں۔"
سید علی گیلانی کے ایک اور صاحبزادے ڈاکٹر نسیم گیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا "ہم نے ابا جان کی قبر کو آج صبح دس بجے کے قریب دیکھا اور وہاں فاتحہ پڑھی۔
یاد رہے کہ سید علی شاہ گیلانی طویل علالت کے بعد بُدھ کی شب وفات پا گئے تھے۔ ان کی عمر لگ بھگ 92 برس تھی۔
سید گیلانی عارضہِ قلب میں مبتلا تھے جو سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پر گزشتہ کئی برس سے نظر بند تھے۔
سید علی گیلانی کے ایک قریبی رشتے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے بُدھ کی سہہ پہر سینے میں شدید درد کی شکایت کی تھی جس کے بعد شام کو اُن کی حالت ابتر ہوئی اور شب دس بجے کے قریب انہوں نے آخری سانس لی۔
سرینگر میں کرفیو نافذ
سری نگر کے مختلف علاقوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی اضافی نفری تعینات ہے جب کہ سیکیورٹی فورسز نے حیدر پورہ علاقے کی مکمل ناکہ بندی کر دی ہے۔
انتظامیہ نے صحافیوں کو بھی حیدر پورہ کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی۔ سری نگر میں سخت کرفیو نافذ ہے اور کسی بھی جگہ جلسے یا تعزیتی اجتماعات منعقد کرنے یا جلوس نکالنے پر پابندی ہے۔
سوپور، بارہمولہ، کپواڑہ، بانڈی پور، اننت ناگ، پلوامہ، کلگام، ترال اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی سخت حفاظتی پابندیاں نافذ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے دو برس بعد کیا کچھ تبدیل ہوا ہے؟انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے بتایا ہے کہ وادی میں انٹرنیٹ سروسز کو معطل کردیا گیا ہے اور حفاظتی پابندیاں حفظِ ما تقدم کے طور پر نافذ کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا امن و امان کو برقرار رکھنا پولیس کا فرض ہے اور بعض اقدامات احتیاط کے طور پر اٹھائے گئے ہیں۔
سید گیلانی کی وفات پر پاکستان کا اظہارِ افسوس
حکومتِ پاکستان نے سید علی شاہ گیلانی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی قوم آزادی اور انصاف کے لیے ان کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سید علی گیلانی حقِ خودارادیت کی جدوجہد کے عظیم ہیرو اور ناتواں آواز تھی جو کسی بھی موقع پر اپنے نظریات سے نہیں پھرے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سید علی گیلانی کے انتقال پر اعلان کیا کہ پاکستان کا قومی پرچم سرنگوں رہے گا اور سرکاری طور پر ان کی وفات کا سوگ منایا جائے گا۔
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہم سید علی گیلانی کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے اور ان کے الفاظ کو اپنے دل و دماغ میں تازہ کیے ہوئے ہیں کہ: "ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔"