ایک امریکی جج نے گزشتہ ہفتے جمعے کے روز تجویز کیا ہے کہ ستمبر گیارہ 2001 کے متاثرین محض طالبان کے خلاف عدالتی فیصلوں کو بنیاد بنا کر افغان سینٹرل بینک کے اثاثے حاصل نہیں کر سکتے۔
امریکی شہر نیویارک کے علاقے مین ہٹن میں یو ایس مجسٹریٹ جج سارہ نیٹبرن نے اپنی تجاویز میں کہا کہ افغانستان کے سینٹرل بینک ڈا افغان بینک امریکی عدالت کے اختیارات سے باہر تھا اور یہ کہ اس طرح اثاثے ضبط کرنا اس بات کا اقرار ہے کہ طالبان ہی دراصل افغان حکومت ہیں، جس کا اختیار صرف امریکی صدر کو حاصل ہے۔
جج نیٹبرن نے لکھا کہ ’’طالبان کے متاثرین نے انصاف، احتساب اور تلافی کے لیے برسوں جنگ لڑی ہے۔ وہ بھی کم کے حق دار نہیں ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو معاوضہ دینے کے عدالتی اختیار پر قانون کی کچھ حدود ہیں، اور ان حدود کی وجہ سے افغان بینک کے اثاثے عدالتی اختیارات سے باہر ہیں۔
نیٹ برن کی تجاویز کاجائزہ یو ایس ڈسٹرکٹ جج جارج ڈینئیل لیں گے جو اس مقدمے کی نگرانی کر رہے ہیں اور وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا نیٹ برن کی تجاویز تسلیم کی جائیں یا نہیں۔
SEE ALSO: افغان منجمد اثاثوں کو روکنے سے متعلق رپورٹنگ درست نہیں: نیڈ پرائسیہ فیصلہ ان چار مدعی گروپوں کی شکست ہے جنہوں نے القاعدہ سمیت متعدد گروپوں پرمقدمہ ہ دائر کر رکھا تھا جنہیں وہ گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ عدالتیں ان مدعا علیہ گروہوں کے حاضر نہ ہونے کے سبب مدعیان کے حق میں فیصلے دے چکی ہیں۔
ان مدعی گروپوں کے وکلا نے خبر رساں ادارے رائیٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا ہے۔
یہ گروپ افغان سینٹرل بینک کے سات ارب ڈالر کے اثاثوں میں سے واجب الادا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغان مرکزی بینک کے اثاثے اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے نیویارک میں فیڈرل ریزرو بینک میں منجمد پڑے ہیں۔
رواں برس فروری میں صدر بائیڈن نے ان اثاثوں میں سے 3.5 ارب ڈالر کی رقوم کو افغان عوام کے مفاد کی غرض سے علیحدہ کر دیا ہے۔ باقی کی رقم آئیندہ عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں ان متاثرین کو معاوضہ دینے کے کام لائی جائے گی۔
SEE ALSO: سیکیورٹی کونسل طالبان قیادت کو سفر کی اجازت دینے پر منقسمامریکہ کی سیاٹل یونی ورسٹی میں قانون کے پروفیسر طیب محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ستمبر گیارہ کے حملوں میں جو متاثرین تھے، افراد یا اس وقت جن انشورنس کمپنیوں کو ہرجانے دینے پڑے، انہوں نے القاعدہ اور افغانستان اور بہت سی دیگر تحریکوں کے خلاف جنہیں وہ اس حملے کا ذمہ دار سمجھتے تھے ہرجانے کے کیسز کر دئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان تو عدالت میں صفائی دینے کے لیے پیش نہیں ہوئے۔ ایسے میں ان کیسز کے فیصلے ان کے خلاف آگئے۔
پروفیسر طیب نے بتایا کہ جب طالبان کی حکومت آگئی تو افغانستان کے سینٹرل بینک کے اثاثے امریکہ میں نیویارک کے فیڈرل ریزرو بینک میں موجود تھے جنہیں منجمد کر دیا گیا تھا۔ رواں برس فروری میں صدر بائیڈن نے ان منجمد اثاثوں میں سے آدھے افغان عوام کی بہتری پر خرچ کرنے کے لیے علیحدہ رکھ لیے۔ باقی رقم کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ ستمبر گیارہ کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے رکھی گئی ہے۔
امریکی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی موقف اختیار نہیں کیا کہ آیا یہ معاوضے کا مطالبہ کرنے والے گروپ 2002 کے ٹیررسٹ رسک انشورنس ایکٹ کے امریکی قانون کے تحت افغان مرکزی بینک کے اثاثوں سے معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں۔
پروفیسر طیب نے کہا حکومت نے جج نیٹ برن اور ڈینئیل کے سامنے یہ معاملہ رکھا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ’’ساورن امیونٹی‘‘ یعنی خودمختار ادارے کو حاصل استثنیٰ کے قانون کو باریک بینی سے دیکھیں۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اسے خدشہ ہے کہ اس فیصلے سے صدر کے خارجہ تعلقات چلانے کے اختیارات میں مداخلت پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اور اس سے ملک سے باہر امریکی اثاثوں کو بھی چیلنجز لاحق ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر طیب نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے پیچیدہ کیسز، جیسے اس کیس میں بہت سے فریق موجود ہیں تو ایسے میں جس کے سامنے کیس ہوتا ہے تو وہ پھر دوسرے مجسٹریٹ سےکہتا ہے کہ اس بارے میں تجاویز دی جائیں۔ تو یہ عدالتی فیصلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ محض تجاویز ہیں لیکن نگران جج کو انہیں بہت سنجیدگی سے لینا پڑے گا اور انہیں مسترد کرنے کے لیے انہیں بہت مضبوط استدلال کی ضرورت ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروفیسر طیب نے جج سارہ کی تجاویز کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جج کی تجاویز میں تین وجوہات دی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ اثاثے کسی کا ذاتی مال نہیں ہیں۔ یہ ایک ریاست کے اثاثے ہیں اور ریاست کو قانونی ایکشن کے لیے استثنیٰ حاصل ہے بشرطیکہ امریکہ نے اس ملک کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والا ملک قرار نہیں دیا۔ اور افغانستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔
پروفیسر طیب کے مطابق دوسری وجوہ جج سارہ نے یہ بتائی کہ اگر یہ کہیں کہ یہ طالبان کا پیسہ ہے اور ہم ان سے لے رہے ہیں تو ایسا لگے گا کہ ہم نے طالبان کو تسلیم کر لیا ہے۔ امریکی قانون میں یہ اختیار صرف صدر کے پاس ہے اور کوئی عدالت ایسا نہیں کر سکتی۔
تیسرا سوال جج نے یہ اٹھایا کہ افغانستان کے بینک اور طالبان میں تعلق بھی طے کرنا پڑے گا۔ پروفیسر طیب کے بقول یہ رقم ضبط کرنے کی صورت میں لازمی یہ سمجھنا پڑے گا کہ یہ بینک طالبان کا نمائندہ ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے علاوہ بیرون ملک 2 ارب ڈالر کے قریب افغان اثاثے جمع ہیں۔
افغان ایویک (#AfghanEvac) نامی ادارے کے سربراہ شان وین ڈائیور نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ افغانستان کے منجمد اثاثے طالبان کو فائدہ پہنچائے بغیر مشکلات میں گھرے افغان عوام کے کام آسکیں۔ ان کا ادارہ افغان مہاجرین کو افغانستان سے نکلنے اور دوسرے ممالک میں بسنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مطابق جج نے درست فیصلہ دیا۔
SEE ALSO: طالبان کے ساتھ قربت: چین محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا ہےگیارہ ستمبر 2001 ککو القاعدہ کے حملوں میں تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس روز نیویارک شہر میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دو مسافر جہازوں کے ٹکرانے کے علاوہ امریکی ریاست ورجینا میں واقع پنٹگان کی عمارت سے بھی ایک جہاز ٹکرایا تھا۔ اس کے علاوہ ایک چوتھا جہاز ریاست پنسلوینیا کے ایک کھیت میں جا کر گرا تھا۔
امریکی پابندیاں اگرچہ طالبان کے ساتھ مالی کاروبار کو ممنوع قرار دیتی ہیں لیکن افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کو استثنیٰٰ فراہم کرتی ہیں۔
اس خبر کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے رائیٹرز سے لیا گیا۔