اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے شام کے محصور شہر حلب میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں مربوط آزادانہ تفتیش کرانے پر اتفاق کیا ہے۔
مشرقی حلب میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورت حال پر گفتگو کرنے کے لیے ہنگامی اجلاس ایک روز تک جاری رہا۔ 47 رکنی ادارے نے قرارداد منظور کی جس کے حق میں 24، مخالفت میں سات جب کہ 16 غیر حاضر رہے۔
قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والوں میں الجیریا، بولیویا، برونڈی، چین، کیوبا، روس اور ونزویلا شامل ہیں۔
قرارداد میں تفتیش کاروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اُن فریق کی شناخت کریں جن کے لیے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ مشرقی حلب میں خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں، اور اُن کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ووٹ سے پہلے، شامی صدر بشار الاسد کے اتحادی، روس نے قرارداد میں ترمیم کی کوشش کی تاکہ حکومتِ شام اور اُس کے اتحادیوں سے دھیان ہٹ کر باغیوں پر مرتکز ہوجائے، جن کے لیے اُس نے دہشت گردوں کا لفظ استعمال کیا۔
روس کی جانب سے پانچ ترامیم تجویز کی گئیں، جن میں ’’دہشت گردوں کے لیے جاری تشویش پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا، جن میں خاص طور پر النصرہ محاذ، داعش اور شام اور بیرونِ ملک دیگر غیر قانونی مسلح گروپ شامل ہیں‘‘، اور تمام ملکوں اور فریق پر زور دیا ہے کہ وہ ’’فوری طور پر اس طرح کی حرکات سے بعض رہیں‘‘۔
تاہم، اقوام متحدہ کی کونسل نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور روسی ترامیم کو مسترد کیا۔ ادارے نے شہری آبادی اور شہری زیریں ڈھانچے پر تمام حملوں کی مذمت کی، اور یہ مطالبہ کیا کہ شام اور اُس کے اتحادی ’’حلب شہر کے اوپر فضائی بم باری اور تمام فوجی پروازیں فوری طور پر بند کریں‘‘۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی، زید رعد الحسین نے اجلاس کی صدارت کی، جو دِن بھر جاری رہا۔ اُنھوں نے وفود کو بتایا کہ مشرقی حلب کا محاصرہ کرنا اور بم باری کرنا ’’تاریخی نوعیت کے سنگین جرائم‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔