اسرائیلی پولیس اور فلسطینیوں کے درمیان مسجدِ اقصیٰ میں ایک مرتبہ پھر بدھ کی رات جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ان جھڑپوں میں کم از کم چھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹر' کے مطابق مسجدِ اقصیٰ کا انتظام دیکھنے والے وقف کا کہنا ہے کہ دوسری مرتبہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب پولیس رات گئے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی اور نمازیوں کو نکالنے کی کوشش کی۔
وقف کے ایک رکن کے مطابق پولیس نے اسٹن گرینیڈ اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔
اس سے قبل اسرائیلی پولیس نے منگل کی رات اور بدھ کی علی الصباح مسجد اقصیٰ میں کارروائی کی تھی۔
وقف کی جانب سے رات بھر عبادت کی کال پر فلسطینیوں کی بڑی تعداد مسجد اقصیٰ پہنچی اور نماز ختم ہونے سے قبل ہی پولیس اہلکار مسجد میں داخل ہو گئے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ نمازیوں کی جانب سے اہلکاروں پر مختلف چیزیں بھی پھینکی گئیں۔
دوسری جانب اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ درجنوں نوجوانوں نے پتھر اور آتشیں مواد کے ہمراہ مسجد میں خود کو بند کرلیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ "قانون شکنی کرنے والے درجنوں نوجوانوں" نے افراتفری کو ہوا دی، پولیس افسران پر پتھر اور دیگر چیزیں پھینکی اور پولیس کو "سیکیورٹی، امن و امان" بحال کرنے کے لیے کارروائی پر مجبور کیا۔
SEE ALSO: مسجدِ اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس کی کارروائی کے بعد غزہ سے جوابی راکٹ حملےرپورٹس کے مطابق مسجد کے ایک داخلی راستے پر پولیس افسران کو درجنوں فسلطینیوں کو کمپاؤنڈ سے باہر نکالتے ہوئے دیکھا گیا۔
فلسطینی ریڈ کراس کا کہنا ہے دوسری مرتبہ ہونے والی جھڑپوں میں چھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ کے مطابق "اسرائیل کا مسجد اقصیٰ پر چھاپہ، نمازیوں پر حملہ امریکہ کی حالیہ کوششوں پر طمانچہ ہے جس میں امریکہ نے رمضان کے مہینے میں امن اور استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔"
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے مسجد اقصیٰ میں پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی کشیدگی کم کریں۔
مسجد اقصیٰ میں منگل کو ہونے والی جھڑپوں کے جواب میں فلسطینی عسکریت پسند گروہوں نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی طرف راکٹ بھی داغے تھے اور خبردار کیا تھا کہ مزید تصادم ہونے والا ہے۔
لیکن ایک فلسطینی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی مصر، اردن، امریکہ اور اقوامِ متحدہ کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ کشیدگی کم کی جاسکے۔
ادھر اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ان کا ملک مقدس مقام پر "کشیدگی کم" کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ان کے بقول، " یہ صورتِ حال شدت پسندوں کی وجہ سے ہوئی ہے جنہوں نے ہتھیاروں، پتھروں اور آتشی مواد کے ساتھ خود کو مسجد کے اندر بند کرلیا تھا۔"
واضح رہے کہ مشرقی یروشلم میں واقع الاقصیٰ کمپاؤنڈ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ 35 ایکڑ پر پھیلے اس وسیع احاطے کو مسلمان مسجدِ اقصیٰ یا حرم الشریف اور یہودی 'ٹیمپل ماؤنٹ' کہتے ہیں۔
دو مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس مقام پر یہ جھڑپیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب مسلمان رمضان کے مہینے میں خصوصی عبادات کے لیےمسجد آرہے ہیں جب کہ یہودی 'پاس اوور' کا تہوار منا رہے ہیں۔
مسجد اقصیٰ میں جھڑپوں پر عالمی ردِعمل
مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس کی کارروائی پر عالمی ردِعمل بھی آ رہا ہے۔ سعودی عرب کے بعد عرب لیگ اور ترکیہ نے بھی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔
عرب لیگ نے اس واقعے پر بدھ کو ہنگامی اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی پولیس کی مسجد اقصیٰ میں کارروائی سے علاقائی استحکام خطرے میں پڑ گیا ہے۔
عرب لیگ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے مسجد میں نہتے مسلمانوں کے خلاف جرائم کیے ہیں۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے بدھ کو اسرائیلی پولیس کی اقصیٰ مسجد میں کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات ترکیہ کے لیے 'ریڈ لائن' ہیں۔
ایردوان نے ایک افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ملک اور لوگوں کی طرف سے مسلمانوں کے قبلہ اول کے خلاف ہونے والی گھناؤنی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان حملوں کو جلد از جلد روکا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی ٹوروینس لینڈ نے کہا کہ وہ الاقصیٰ میں "تشدد کی تصاویر سے خوف زدہ ہیں۔" انہوں نے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور مارپیٹ کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی جانب سے پٹاخون اور پتھروں کو ذخیرہ کرنے کی رپورٹس کی مذمت کی۔
اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔