خیبرپختونخواہ میں تشدد کے مختلف واقعات میں ایک پولیس افسر سمیت آٹھ افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔
کوہاٹ روڈ پر واقع بازید خیل بس اسٹاپ پر جمعرات کی دوپہر ایک مسافر وین میں دھماکے سے کم ازکم سات افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔
پشاور کے سینیئر سپریٹنڈنٹ پولیس نجیب الرحمن نے بتایا کہ یہ دھماکا گاڑی میں رکھے گئے بارودی مواد کے پھٹنے سے ہوا۔
"یہ ہائی ایس گاڑی تھی اس میں (گیس کے) چار سلنڈر بھی لگے ہوئے تھے۔ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ بارودی مواد ایک کولر میں رکھا گیا ہے ابھی ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس مواد کو کہیں منتقل کیا جا رہا تھا یا پھر یہ گاڑی ہی اس کا نشانہ تھی۔"
بم ناکارہ بنانے والے محکمےکے حکام کے مطابق دھماکے میں لگ بھگ پانچ کلو گرام بارودی مواد استعمال ہوا۔
دھماکے کے بعد گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی جس سے دو افراد بری طرح جھلس کر موقع پر ہی دم توڑ گئے۔
اس واقعے سے چند ہی گھنٹے قبل پشاور کے علاقے یکہ توت میں پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو نا معلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔
ان دونوں واقعات کی ذمہ داری کسی فرد یا گروہ نے قبول نہیں کی ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کی حالیہ لہر شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی کا ردعمل ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز نجیب الرحمن کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان سے شدت پسند بھاگ کر خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں داخل ہوئے اور وہ منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے بقول پولیس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم ہے۔
جون کے وسط سے پاکستان کی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی جس میں اب تک ایک ہزار سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
اس فوجی آپریشن کے شروع ہونے کے بعد ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں ایک بار پھر خصوصاً خیبر پختونخواہ میں پرتشدد کارروائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔