|
نئی دہلی -- بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر سنبھل میں اتوار کو جامع مسجد کے سروے کے موقع پر ہونے والے تصادم میں ہلاکتوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔
شہر میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں جب کہ تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔
مقامی عدالت کی جانب سے مقرر کردہ ایڈووکیٹ کمشنر رمیش راگھو ہری شنکر جین ایڈووکیٹ، پولیس اہل کاروں اور کچھ دیگر افراد کے ساتھ اتوار کی صبح تقریباً سات بجے سروے کرنے کے لیے مسجد پہنچے تھے۔
اس موقع پر بہت سے مسلمان جمع ہو گئے جو مسجد میں جانے کی کوشش کرنے لگے۔ اجازت نہ ملنے پر وہ مشتعل ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے پتھراؤ کیا تو کچھ نے گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور فائرنگ کی۔
ایک ہی دن اپیل، سماعت اور سروے پر سوال
سپریم کورٹ کے وکیل وشنو شنکر جین اور کلکی دیوی مندر سنبھل کے مہنت رشی راج گری سمیت آٹھ افراد نے 19 نومبر کو سول جج آدتیہ سنگھ کی عدالت میں ایک درخواست دائر کر کے جامع مسجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
سول جج نے تین گھنٹے کی سماعت کے بعد ایڈووکیٹ کمشنر مقرر کر کے مسجد کے سروے کا حکم دیا اور 29 نومبر کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔ سہ پہر ساڑھے تین بجے حکم دیا گیا اور کمشنر نے اسی روز شام میں سات بجے جا کر سروے کیا۔
حزبِ اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے مبینہ عجلت پر سوال اٹھایا ہے۔ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے پیر کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ فریقین کا مؤقف سنے بغیر غیر حساسیت سے کی گئی کارروائی نے ماحول کو خراب کیا۔ انھوں نے ہلاکتوں کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور متاثرین کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔
بی جے پی نے الزام عائد کیا ہے کہ اپوزیشن پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد سے ہی ماحول کو خراب کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو لوگ عدالتی حکم سے متفق نہیں ہیں وہ عدالت کا رخ کر سکتے ہیں۔
ہندو فریق کا دعویٰ
درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام پر بھگوان کلکی کا مندر تھا جسے مغل حکمراں بابر نے 1526 میں منہدم کر دیا اور ان کے سپہ سالار ہندو بیگ نے 1528-1527 میں وہاں مسجد کی تعمیر کی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسی مقام پر بھگوان کلکی کا اوتار ہو گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق وہاں قدیم زمانے میں بھگوان وشنو اور بھگوان شیو کی ایک نشانی ملی تھی جس کی وجہ سے اسے ہری ہر مندر کہا جاتا ہے۔ اس مندر کی تعمیر کائنات کے آغاز پر بھگوان وشو کرما نے کی تھی۔
ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ قدیم آثار کے تحفظ کے قانون 1904 کے تحت اس مسجد کو 22 دسمبر 1920 کو محفوظ یادگار کے طور پر نوٹی فائی کیا گیا تھا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کی محفوظ یادگاروں کی فہرست میں اسے قومی اہمیت کی حامل عمارت قرار دیا گیا ہے۔
لیکن محکمہ آثار قدیمہ اس پر اپنا کنٹرول رکھنے میں ناکام ہے اور مسجد کمیٹی نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ محفوظ یادگار کے قانون کے تحت اس میں ہر شخص کو داخل ہونے کا حق ہے۔ تمام لوگوں کو مسجد کے اندر جانے کی اجازت دی جائے اور مسلمانوں کو لوگوں کے داخل ہونے سے روکنے کو منع کیا جائے۔
مسلمانوں کا مؤقف
مقامی مسلمان ہندوؤں کے دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ وہ مسجد کے اندر نصب ایک کتبے کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے مطابق مسجد کو بابر کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس پر سن 933 درج ہے جو کہ انگریزی سنہ کے حساب سے 1526 ہوتا ہے۔
لیکن عرضی گزار گزٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کتبہ فرضی ہے اور اس کی دوسری جانب سنسکرت زبان میں اس کے مندر ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔
عدالت میں مسجد کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ ظفر علی کا کہنا ہے کہ 19 نومبر کو دو گھنٹے میں سروے مکمل ہو گیا تھا۔ کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہیں پائی گئی۔ کوئی ایسی چیز ملی ہی نہیں جس سے کوئی شک بھی پیدا ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شاہی جامع مسجد واقعی ایک مسجد ہے مندر نہیں۔
مسلم وکلا کے مطابق عدالت نے انھیں اپنا مؤقف رکھنے کا موقع دیے بغیر سروے کا حکم دے دیا۔ اس نے کسی بھی ناخوش گوار واقعے کو روکنے کے لیے امن کمیٹی کی میٹنگز کے انعقاد کا بھی موقع نہیں دیا۔
ان کے مطابق مسجد کی چار دیواری اور مقفل اسٹور روم کو کھلوا کر اس کا بھی سروے کیا گیا۔ مسجد کے ذمہ داروں نے سروے کمشنر کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
سنبھل کے رکن پارلیمان ضیاء الرحمن برق نے سروے کو عجلت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق عدالت نے ہمیں جواب داخل کرنے کا موقع نہیں دیا۔
ان کے مطابق باہری لوگوں نے شہر کا ماحول خراب کرنے کے مقصد سے عدالت میں درخواست داخل کی ہے۔ انھوں نے 1991 کے عبادت گاہ بل کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی اسی شکل میں رہے گی۔
ان کے بقول سنبھل کی جامع مسجد میں مسلمان کئی صدی سے نماز ادا کر رہے ہیں۔ اگر مقامی عدالت ہماری اپیل پر کوئی اطمینان بخش فیصلہ نہیں دیتی ہے تو ہمیں ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق ہے۔
وشنو شنکر جین ایڈووکیٹ کون ہیں؟
وشنو شنکر جین لکھنو کے رہائشی اور سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ وہ اور ان کے والد ہری شنکر جین ایڈووکیٹ ہندو مذہب سے متعلق قانونی معاملات کے معروف چہرہ ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق باپ بیٹے کی جوڑی عدالتوں میں ہندو فریقوں کا موقف رکھتی ہے۔ دونوں اب تک مندر مسجد تنازع سے متعلق 200 کیس لڑ چکے ہیں۔
ہندی اخبار ’دی ہندوستان‘ کے مطابق وہ بابری مسجد، گیان واپی مسجد، شاہی عیدگاہ متھرا، قطب مینار اور تاج محل سے متعلق تنازعات میں ہندو فریقوں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ وشنو شنکر جین 2016 سے سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہیں۔
سنبھل کی جامع مسجد کا موازنہ بابری مسجد سے
انسانی حقوق کی بعض تنظیموں اور مسلم شخصیات کو یہ اندیشہ ہے کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو بھی ایودھیا کی بابری مسجد، وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے تنازعات کی طرح متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جمعیت علمائے ہند کے صدر اور سابق رکن پارلیمان مولانا محمود مدنی نے ایک بیان میں کہا کہ بابری مسجد کے انہدام کا زخم ابھی تازہ ہے۔ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ہی 1991 میں عبادت گاہ قانون منظور کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے ایودھیا فیصلے میں بھی اس قانون کی اہمیت کا ذکر کیا ہے۔ اس کے باوجود قرونِ وسطیٰ میں تعمیر کی گئی مساجد کے خلاف پٹیشنز داخل کی جا رہی ہیں جو کہ تشویش ناک ہے۔ ماضی کے واقعات کو زندہ کرنے کا کوئی اختتام نہیں ہو گا۔
رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ بابری مسجد تنازع میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہندوتوا نواز عناصر کو پورے ملک میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا حوصلہ ملا ہے۔
ان کے مطابق جس طرح مسلمانوں کا مؤقف سنے بغیر پوجا کرنے کے لیے بابری مسجد کا قفل کھول دیا گیا تھا اسی طرح سنبھل میں جس روز درخواست داخل کی گئی اسی روز سماعت ہوئی اور اسی روز سروے ہو گیا۔