روس کے لیے امریکہ کے سفیر جان سلیوان نے کہا ہے کہ روس نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ اس کو یوکرین سے اس قدر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی اور یوکرین کے عوام نے جس طرح روسی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے، وہ متاثر کن ہے۔
واشنگٹن میں منعقد ہونے والی گلوبل چیفس آف مشن کانفرنس کے موقع پر وائس آف امریکہ کی روسی سروس کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں جان سلیوان نے بتایا کہ اس کانفرنس کے دوران یوکرین پر روس کا حملہ جو ان کے الفاظ میں ایک بڑی جارحیت ہے، اہم موضوع بنا رہا۔
دفتر خارجہ میں وی او اے کی روسی سروس سے گفتگو کرتے ہوئے جان سلیوان نے کہا کہ میرے خیال میں اس مسئلے کی شدت اور جو کچھ روس نے اپنے اقدامات کے ذریعے کیا ہے، اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کے بقول تقریبا 15 ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد یا تو بیرون ملک پناہ گزین ہیں یا وہ ملک کے اندر بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہم نے ہلاک یا زخمی ہونے والے افراد سے متعلق اعداد و شمار سنے ہیں، لیکن ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
’’یہ ا زخود یوکرین پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ اس سے یوکرین کے ہمسایوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ صدر بائیڈن کی قیادت میں امریکہ اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں نے سمجھ بوجھ کر یوکرین کو اور اس کے پڑوسی پولینڈ، چیک جمہوریہ، سلوواکیہ، رومانیہ، بلغاریہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی ہے، جہاں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ امریکہ ان حالات میں ایک لاکھ یوکرینی پناہ گزینوں کو امریکہ لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ یوکرین جنگ میں کیف کی مجموعی کامیابی کے لیے کتنے پر اعتماد ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ فوجی امور کے ماہر نہیں ہیں، لیکن ایک عام انسان کے طور پر انہوں نے دیکھا ہے کہ صدر ولادیمیر زیلنسکی اور ان کی حکومت نے جس طرح بڑی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے وہ متاثر کن ہے۔
SEE ALSO: کیا یوکرین جنگ ایٹمی ہتھیاروں کی نئی عالمی دوڑ کا سبب بن سکتی ہے ؟’’مجھے نہیں لگتا کہ روسی حکومت کو یہ توقع تھی کہ یوکرین کی حکومت اس طرح مضبوطی سے کھڑی رہ سکتی ہے اور مزاحمت کر سکتی ہے۔ یہ سب بہت متاثر کن ہے۔ مجھے یقین ہے کہ زیلنسکی اور ان کے ہم وطن اپنے ملک پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے ملک کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور وہ ہمت نہیں ہار رہے۔ روس کا میڈیا روس کی طاقت دکھا رہا ہے۔ انہوں نے یوکرین کی طاقت کے بارے میں غلط اندازے لگائے ہیں۔‘‘
جان سلیوان نے کہا کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور دنیا بھر سے رہنما روس پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جنگ ختم کرے، جارحیت بند کرے اور مذاکرات کی طرف آئے۔ لیکن ایسے اشارے نظر نہیں آتے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یوکرین کے لوگ مزاحمت ترک کر دیں اور روسی حملے کے آگے ہتھیار ڈال دیں اور تب وہ مذاکرات کریں گے۔ لیکن دوسری جانب یوکرین کے صدر زیلنسکی اپنے لوگوں کی ایما پر روس کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات تو کریں گے لیکن ایسے میں نہیں جب روس کی بندوقیں ان کے سروں پرتنی ہوں۔
کیا چین روس کو مذاکرات کی طرف لانے میں کوئی کردار ادا کر سکتا تھا، کیا اس حوالے سے ماسکو میں چین کے سفیر سے آپ کی بات ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں جان سلیوان نے کہا کہ ’’میری اپنے چینی ہم منصب سے اس حوالے سے بات نہیں ہوئی۔ ہمارے کولیگز نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ چین اور پوری مہذب دنیا کے ساتھ، جو اقوام متحدہ کے منشور کی حمایت کرتے ہے، توقع رکھتے ہیں کہ وہ تشدد اور جارحیت کے خلاف ہیں۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ چین کے بیانات پر دنیا کو مایوسی ہوئی ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ کی روسی سروس نے اس موقع پر سوال کیا کہ صدر جو بائیڈن اس ہفتے کے اختتام پر جی سیون گروپ کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے جرمنی جا رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یوکرین کے معاملے پر زیادہ تر گفتگو ہو گی۔ اس کے بعد صدر بائیڈن میڈرڈ میں ہونے والے نیٹو اجلاس میں شریک ہوں گے۔ ان اہم اجلاسوں سے آپ کی کیا توقعات ہیں؟
اس سوال کے جواب میں روس کے لیے امریکہ کے سفیر جان سلیوان نے کہا کہ ’’مجھ سے یہ سوال پچھلے چھ ماہ سے پوچھا جا رہا ہے۔ جب بھی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی قیادت کی ملاقات ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے کے ساتھ شاندار اتحاد کا اعادہ کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جی سیون اور نیٹو رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد بھی یہی نتیجہ سامنے آئے گا۔‘‘
روس کی جانب سے یورپی یونین کو گیس کی فراہمی اور اس پر یورپی ممالک میں اختلافات اور خدشات کے سوال پر جان سلیوان نے کہا کہ یہ قلیل مدتی مسئلہ ہے اور ہم مل کر اس کا حل نکال لیں گے۔ اور ہم روس جیسےجارح اور مخاصمت رکھنے والے ملک پر حد سے زیادہ انحصار کرنےکی غلطی نہیں کریں گے ۔