آزادی مارچ: ہمارے نمائندوں نے کیا دیکھا؟

Dharna 7

مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے 'آزادی مارچ' کا آغاز اتوار، 27 اکتوبر کو کراچی سے کیا تھا جو اپنی منزل اسلام آباد پہنچا۔ بدھ 13 نومبر کو یہ دھرنا ختم کرکے کئی دھرنوں کا اعلان کیا گیا۔ 'آزادی مارچ' کے اس سفر کے دوران مختلف شہروں میں ہمارے نمائندوں نے کیا دیکھا، جانیے ان کے اپنے الفاظ میں۔

اسلام آباد’ آزادی مارچ ‘ختم کرنے اور دھرنوں کے اگلے مرحلے کا اعلان

گیتی آرا انیس، اسلام آباد۔۔ بدھ، 13 نومبر 2019

لوگ جتھوں کی صورت میں پنڈال میں داخل ہو رہے تھے۔ اتنے دن گزر جانے کے بعد آنے جانے کا سلسلہ تو رکا ہوا تھا، لیکن شرکا ابھی بھی کافی جوش و خروش کے ساتھ نعرے بازی کر رہے تھے۔ پنڈال میں موجود لوگ اس وقت صوبائی قیادت کی بات کافی غور سے سن رہے تھے، کیونکہ انہیں بتایا جا رہا تھا کہ یہاں سے نکل کر کن علاقوں کی طرف جانا ہے۔ اسلام آباد میں چونکہ خنکی بڑھ چکی ہے، اس لیے زیادہ تر افراد بڑے دوشالے اوڑھے بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ میں بتائے جانے والے اضلاع اور شاہراہوں کو جانے کی ہدایات پر نعرے بازی کر کے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے رہے۔
لیکن سٹیج سے ذرا ہٹ کر لگے خیمے اسی دوران سمیٹے جا رہے تھے۔ کھانے پینے کا سامان فروخت کرنے والے اپنے خوانچے اٹھا رہے تھے، کیونکہ دو ہفتے سے جاری دھرنے کے شرکا ہی ان کے گاہک تھے۔

دھرنے کے شرکاء خیمے اتار رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنے سے اپنی آخری تقریر میں شرکا کو مبارک باد دی۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول، دھرنے نے حکومت کی جڑیں 'کاٹ' دی ہیں۔ انہوں نے شرکا سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ پر امن احتجاج کے قائل ہیں، اس لیے ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ ان کا راستہ آیندہ آنے والے دنوں کے احتجاج میں بھی نہ روکیں۔

دھرنے کے شرکاء سامان سمیٹ رہے ہیں۔

جے یو آئی ایف اپنے کسی بھی مطالبے کو منوائے بغیر اسلام آباد سے جار ہی تھی، لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے حامیوں کو آگاہ کیا کہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان پسپائی نہیں ہے۔ بلکہ ان کا آزادی مارچ اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسلام آباد میں دھرنا ختم، اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟


مولانا کے بقول، اہم شاہراہوں کو بلاک کر دیا جائے گا، جس کا حکومت کے پاس سوائے مستعفی ہونے کے کوئی جواب نہیں ہوگا۔ اس تقریر کے دوران بھی شرکا پھرپور طریقے سے مولانا کو نعروں کے ذریعے جواب دے رہے تھے۔ ہم نے جب لکی مروت سے آئے ایک کارکن سے پوچھا کہ وہ اپنے علاقے میں واپس جا کر کیا کریں گے تو انہوں نے کہا کہ انہیں بتا دیا گیا ہے کہ انہیں کہاں جانا ہے۔

تقاریر اختتام پذیر ہو رہی تھیں اور پنڈال تیزی سے خالی ہو رہا تھا، اسلام آباد کی زیادہ تر سڑکیں اس دھرنے کے دوران شام کے اوقات میں بلاک رہتی تھیں اور پنڈال کے باہر ابھی بھی وہی صورتحال تھی۔ جب وی او اے کی ٹیم ایچ نائن کے گراؤنڈ سے باہر نکل رہی تھی تو باہر بسوں اور پک اپس پر سینکڑوں افراد سوار ہوتے دیکھے جا سکتے تھے جن کے ایک ہاتھ میں پارٹی کا جھنڈا تھا اور دوسرے میں کمبل۔


دھرنے سے واپسی کی راہ لیتے ایک اور شخص طاہر احمد نے بتایا کہ ان کا تعلق پشاور سے ہے، اور انہیں اب بھی اپنی قیادت پر اعتماد ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ حکومت تو مستعفی ہوئی نہیں اور یہی ان کی جماعت کا بنیادی مطالبہ تھا تو کامیابی کیسی؟ اس پر طاہر نے کہا کہ دھرنا ختم ہوا ہے مارچ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چند دن میں تمام مین روڈ مکمل بلاک کر دیے جائیں گے، جس کے بعد حکومت کسی طور اقتدار میں نہیں رہ سکے گی۔
تقاریر اختتام پذیر ہو رہی تھیں اور پنڈال تیزی سے خالی ہو رہا تھا، اسلام آباد کی زیادہ تر سڑکیں اس دھرنے کے دوران شام کے اوقات میں بلاک رہتی تھیں اور پنڈال کے باہر ابھی بھی وہی صورتحال تھی۔ جب وی او اے کی ٹیم ایچ نائن کے گراؤنڈ سے باہر نکل رہی تھی تو باہر بسوں اور پک اپس پر سینکڑوں افراد سوار ہوتے دیکھے جا سکتے تھے جن کے ایک ہاتھ میں پارٹی کا جھنڈا تھا اور دوسرے میں کمبل۔

دھرنے سے کچھ افراد کی چاندی، بعض کے کاروبار بند

نذر الاسلام، اسلام آباد -- منگل، 12 نومبر 2019

جمعیت علمائے پاکستان (ف) نے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف دو ہفتے قبل آزادی مارچ شروع کیا اور کراچی سے اسلام آباد پہنچ کر اسے دھرنے میں تبدیل کر دیا جو اب بھی جاری ہے۔ دھرنے کو دو ہفتے گزرنے کے باوجود شرکا کی تعداد کم نہیں ہوئی ہے۔

اسلام آباد کے مرکزی علاقے پشاور موڑ کے قریب خیمہ زن دھرنے کے شرکا فجر کی نماز کے بعد ناشتہ کرتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ اپنے خیموں میں اخبارات کا مطالعہ شروع کر دیتے ہیں تو کہیں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

دھرنے کے بعض شرکا دن چڑھتے ہی اسلام آباد کے مختلف علاقوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔ لیکن، منتظمین اور رضاکار باقاعدگی سے فرائض کی ادائیگی جاری رکھتے ہیں۔

کئی افراد صبح سویرے کرکٹ میچز کھیل کر اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا مشغلہ کبڈی کھیلنا ہے تو وہیں بعض افراد دیگر علاقائی کھیلوں سے اسلام آباد کے ٹھنڈے موسم میں اپنا لہو گرمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آزادی مارچ کے شرکا کے قیام کے بعد اسلام آباد کے ايچ نائن سيکٹر ميں ٹھيلے والوں کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا ہے۔ دھرنے کے مقام کے آس پاس کئی افراد ٹھیلوں پر مختلف اشیأ فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

عبد الرّحيم کا تعلق مہمند ايجنسی سے ہے اور وہ دھرنے کے مقام پر فروٹ چاٹ بيچتے ہيں۔ ان کے بقول، وہ روزانہ یہاں فروٹ چاٹ بیچ کر دو ہزار کے لگ بھگ کما ليتے ہيں۔

دھرنے میں شریک حاجی شرافت علی نے کہا کہ وہ کھانے پينے کی تمام اشياء اپنے ساتھ لائے ہيں۔ ليکن پھر بھی وہ روزانہ عبد الرّحيم کے ٹھیلے پر فروٹ چاٹ کھانے آتے ہيں۔ ان کے بقول، فروٹ چاٹ سے ان کی توانائی بحال ہوتی ہے۔

علی رضا انار کا جوس بيچتے ہيں۔ انہوں نے بتایا کہ دھرنے کے شرکا بہت شوق سے ان سے جوس پيتے ہيں۔

تقريباً ايک کلوميٹر کے احاطے پر پھيلا یہ دھرنا دن میں کسی فروٹ منڈی يا مينا بازار سے کم نہیں لگتا۔ آزادی مارچ کے شرکا دہی بھلے، بريانی، نان روٹی اور مختلف پھلوں کے جوس پی کر لطف اندوز ہوتے ہيں۔

البتہ، دھرنے کے باعث کچھ لوگوں کا کاروبار متاثر بھی ہوا ہے۔ دھرنے کے مقام کے قريب واقع ایک پيٹرول پمپ گزشتہ دو ہفتوں سے بند ہے۔

پیٹرول پمپ کے مینيجر نے بتایا کہ انہیں روزانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جب کہ پيٹرول پمپ کے درجنوں ملازمين دھرنے کی وجہ سے بے روزگار ہو گئے ہيں۔

دھرنے سے ملحقہ علاقوں کے رہائشی بھی سخت پريشان ہيں۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ دھرنے کی وجہ سے سڑکیں بند ہیں اور ان کے بچوں کو اسکول اور کالج جانے ميں شديد دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کچھ افراد نے بتایا کہ دھرنے کی وجہ سے علاقے کی بعض سڑکیں بند اور موبائل انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے جس کے باعث قریبی علاقوں کے رہائشیوں کو شخت مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ ايمرجنسی کی صورت ميں بروقت اسپتال بھی نہیں پہنچ سکتے۔

ليکن دھرنے سے کچھ فاصلے پر چاول کی ديگوں کا کاروبار کرنے والے افراد کی چاندی ہو گئی ہے۔

اسماعيل علی اسلام آباد کے سيکٹر جی 10 ميں آرڈر پر چاول کی ديگیں تيار کرتے ہيں۔ انہوں نے بتایا کہ دھرنے کی وجہ سے ان کی آمدنی ميں تين گنا اضافہ ہو گيا ہے۔

اسماعيل کے مطابق، پہلے ان کے پاس 12 ملازم کام کرتے تھے جب کہ دھرنے کے بعد انہوں نے ملازمين کی تعداد بڑھا کر دوگنی کر دی ہے۔ ليکن اس کے باوجود بھی ڈیمانڈ پوری نہیں ہو رہی۔

دھرنے کے شرکا دن بھر اپنی مصروفيات ميں مشغول رہنے کے بعد شام کو مولانا فضل الرحمٰن کی تقرير سننے کے لیے ايک جگہ جمع ہو جاتے ہيں اور اپنی موجودگی اپنے موبائل کی ٹارچ جلا کر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔

بارش سے دھرنے والے پریشان

نذر الاسلام، اسلام آباد -- بدھ، 06 نومبر 2019

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ميں جمعيت علماء اسلام کا دھرنا ساتويں روز ميں داخل ہو گيا ہے۔ حکومت اور اپوزيشن کے درميان ڈيڈلاک تاحال برقرار ہے۔ منگل کی شب گرج چمک کے ساتھ بارش اور تيز ہواؤں کے باعث متعدد خيمے اکھڑ گئے جس کے بعد دھرنے کے شرکا نے رات کنٹينرز اور ملحقہ ميٹرو بس اسٹيشن ميں گزاری۔

کوئٹہ سے آئے غازی خان نے ہمیں بتايا کہ انہوں نے رات کنٹينر ميں گزاری۔

حکومت نے جے يو آئی کے احتجاج کے پيش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف مقامات پر کنٹینر لگا کر راستے بند کر رکھے ہیں، جس کی وجہ سے شہريوں کو شديد مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم، غازی خان کے مطابق انہی کنٹينرز نے انہیں بارش اور موسم کی شدت سے بچایا۔

بارش کے باوجود اسلام آباد ميں واقع سيکٹر ايچ نائن جلسہ گاہ ميں شرکا کے حوصلے اب بھی بلند ہيں۔ بارش کے باعث جلسہ گاہ ميں ہر طرف کيچڑ ہی کيچڑ ہے، جس سے بچنے کے لیے شرکا اپنے ٹھکانے تبدیل کرتے دکھائی دیے۔

اسلام آباد میں بارش، آزادی مارچ کے شرکا پریشان

ثناء اللہ کوئٹہ سے آئے ہيں۔ وہ ہلال احمر کی طبی ٹيم کے پاس اپنے پاؤں کی مرہم پٹی کے لیے آئے ہيں۔ انہيں يہ زخم گزشتہ شام جلسہ گاہ کے قريب گراؤنڈ ميں فٹبال کھيلتے ہوئے ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کب تک اسلام آباد میں رکیں گے؟ جس پر ثناء اللہ نے کہا کہ جب تک عمران خان استعفیٰ نہیں دے دیتے۔

میں دھرنے میں شامل ایک 55 سالہ شخص خلیل احمد کے پاس پہنچا۔

خلیل پنجاب کے ضلع بھکر سے آئے ہیں اور ان کے 12 بچے ہیں۔ خلیل کہتے ہیں کہ بچوں کے پاس رہنا اتنا اہم نہیں جتنا دھرنے میں شرکت ہے۔ بارش کے باعث خلیل نے رات قریبی مارکیٹ میں گزاری۔ میں نے دیکھا کہ بارش اور تیز آندھی کے باعث دھرنے کے شرکا پریشان ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ٹھیلے والوں کی چاندی ہے۔ پشاور کے زاہد اللہ دھرنے کے دوسرے روز یہاں پہنچے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی خوب سیل ہو رہی ہے۔ ان کے بقول، لوگ زیادہ ہیں اور کچھ نہ کچھ خریدتے رہتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے دھرنے کے شرکا کے لیے سيکورٹی کا خاص انتظام کيا گيا ہے۔ داخلی اور خارجی مقامات پر پولیس کی بھاری نفری اب بھی تعینات ہے۔ بارش کے باوجود شرکا پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا جیسے ہی جلسہ گاہ میں آئیں گے لوگ پھر یہاں جمع ہو جائیں گے۔

'نہیں معلوم یہ سفر کب ختم ہوگا'

نذر الاسلام، اسلام آباد -- پیر، 04 نومبر 2019

مفتی اللہ نور سال کے ان دنوں ميں عموماً سالانہ تبليغی اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور کے قریب رائيونڈ شہر جاتے ہيں۔ ليکن، اس دفعہ انہوں نے جمعيت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ میں شرکت کو فوقيت دی۔

وہ مرکزی اسٹيج سے کچھ فاصلے پر اپنے دوستوں کے ساتھ قہوہ نوش کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ جمعيت کے قائدين کی تقريريں بھی سن رہے تھے۔

صوبہ خيبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والے مفتی اللہ نور نے ہمیں بتايا کہ وہ اپنے قائد مولانا فضل الرحمٰن کے کہنے پر اسلام آباد آئے ہيں۔

ان کے مطابق، خود انہیں بھی نہیں معلوم کہ 27 اکتوبر کو شروع ہونے والا ان کا یہ سفر کب اختتام پذير ہو گا۔

آزادی مارچ میں شریک اللہ نور اور ان کے ساتھی

اتوار کی شام اسلام آباد ميں سيکٹر ايچ نائن ميں موجود جے یو آئی (ف) کے کارکنان مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے کوئی نیا لائحۂ عمل دیے جانے کے منتظر تھے۔ ایک گمان یہ تھا کہ مولانا مارچ کے شرکا کو ڈی چوک جانے کا حکم دیں گے۔

ليکن مولانا نے اپنے خطاب میں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا اور مفتی اللہ نور کہتے ہیں کہ انہیں اپنے قائد کا ہر فيصلہ قبول ہے۔

ان کے بقول، ڈی چوک جانا يا نہ جانا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ اسلام آباد سے وزيرِ اعظم عمران خان کا استعفیٰ لے کر ہی جائیں گے۔ لیکن، ان کے بقول، اگر قائد انھيں يہ کہہ دیں کہ ابھی اپنے اپنے گھروں کے لیے روانہ ہوجاؤ تو وہ بغير کسی پچھتاوے کے روانہ ہو جائيں گے؛ کيونکہ، امير کے حکم کی اطاعت کرنا ان کی تعليم و تربيت ميں شامل ہے۔

مفتی اللہ ںور کے ديگر ساتھی شام کے کھانے کی تياری ميں مصروف ہيں۔ اکبر علی آٹا گوندھ رہے ہيں تو عصمت اللہ ترکاری کے لیے پياز اور ٹماٹر کاٹ رہے ہيں۔

ان افراد کا کہنا تھا کہ کھانا پکانا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں بلکہ وہ اکثر اپنے دوستوں کے ہمراہ پکنک پر جاتے ہيں جہاں وہ خود ہی کھانا پکاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تو وہ چند دن کے لیے آئے ہوتے تو پھر تو قريبی ہوٹلوں سے بھی کھانا کھايا جا سکتا تھا۔ ليکن، فی الحال انہیں نہیں پتا کہ انہوں نے اسلام آباد میں کتنے دن ٹھہرنا ہے۔

کشمير خان گزشتہ پانچ دن سے دھرنے کے وسط ميں مکئی کے دانے بھوننے کا کام کر رہے ہيں۔ اس سے پہلے وہ اسلام آباد کی مختلف گليوں ميں صبح سے شام تک اپنی ريڑھی چلا کر مال بيچا کرتے تھے۔

تاہم، ايچ نائن کا ميدان ان کو تمام گاہک ايک ہی جگہ فراہم کر رہا ہے۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے کشمير خان نے بتايا کہ انہوں نے 2014 ميں پاکستان تحريک انصاف کے دھرنے ميں بھی ريڑھی لگائی تھی۔

کشمير خان کے مطابق، اس دوران ان کا مال جلد بک جاتا تھا کيوں کہ ايک تو عمران خان کے دھرنے میں لوگ بھی مال دار آتے تھے اور دوسرا وہ لوگ گھروں سے کھانے پینے کے لیے ساتھ کچھ نہیں لاتے تھے۔

آزادی مارچ کے شرکا ميں سے آپ جس کسی سے بھی چاہيں بات کر سکتے ہيں۔ لیکن خاکی وردی ميں ملبوس 'انصار الاسلام' کے رضاکار بات کرنے سے کتراتے ہيں۔ ان رضاکاروں کے بقول، میڈیا سے بات چیت کے نتیجے میں ان سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی ہو سکتی ہے۔

جے یو آئی کے اس مارچ ميں پاکستان کے کونے کونے سے لوگ آئے ہيں۔ شرکا ميں نماياں تعداد جے يو آئی کے کارکنوں کی ہی نظر آتی ہے۔ لیکن، پنڈال ميں جا بجا پاکستان مسلم ليگ (ن)، پاکستان پيپلز پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے جھنڈے بھی نظر آتے ہيں۔

حاجی محمد پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے چمن سے دھرنے ميں شرکت کے لیے آئے ہيں۔ اپنے سينے کے دائيں جانب مولانا فضل الرحمٰن کی تصوير آويزاں کیے 55 سالہ حاجی محمد نے بتايا کہ وہ عمران خان کا استعفیٰ لينے کے لیے آئے ہيں اور انہیں اس کے علاوہ کسی بھی چيز کی پرواہ نہیں ہے۔

حاجی محمد کے بقول، وہ اپنے خرچ پر اسلام آباد آئے ہيں اور جب تک ان کے قائد انہیں واپس جانے کا نہیں کہتے، وہ يہيں رہنے کو تيار ہيں۔

حاجی محمد اسلام آباد پہلی مرتبہ آئے ہيں۔ ان کے مطابق، يہ ايک خوبصورت شہر ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ وہ اس دوران کچھ گھوم پھر بھی سکيں۔

دھرنے سے مولانا فضل الرحمٰن کا خطاب عموماً شام کو ہوتا ہے جس کا پنڈال میں موجود سب افراد کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔

ہزاروں کی تعداد ميں آئے ہوئے آزادی مارچ کے شرکا کی ديکھ بھال کے لیے ہلالِ احمر کی جانب سے کچھ ايمبولينسيں اور طبی عملہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔

عبيد الرحمان 31 اکتوبر سے یہاں طبی کيمپ لگائے ہوئے ہيں۔ ان کے مطابق، اب تک ان کی ٹيموں نے ايک ہزار سے زائد لوگوں کو طبی سہولتیں فراہم کی ہيں جب کہ 30 کے قريب لوگوں کو ايمبولينس کے ذریعے اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں ميں لے جایا گیا ہے۔

مارچ میں شریک بعض افراد نزدیکی پارکس کی سير کرتے بھی نظر آتے ہيں۔ دھرنے کے مقام سے نزدیک ہی واقع ایک پارک ميں چھوٹے بچوں کے ساتھ جوڈو کراٹے کھیلتے ہوئے انصار الاسلام کے ايک اہلکار نے بتايا کہ اسلام آباد بہت خوبصورت ہے اور انہيں يہاں سر سبز گھاس پر بچوں کو کھيلتے ديکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔

سورج کی کرنيں ماند پڑ رہی ہيں۔ شرکا اپنے کھانے پکانے کے آخری مراحل ميں ہيں اور اس کے بعد اپنے قائد کے خطاب کے منتظر۔

اسلام آباد میں کنٹینرز میں اضافہ ہو رہا ہے

سارہ حسن، اسلام آباد -- اتوار، 03 نومبر 2019

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے حکومت کو دی گئی مہلت ختم ہونے کو ہے۔

جیسے جیسے ڈیڈ لائن ختم ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے ویسے ویسے اسلام آباد کے ریڈ زون کے اطراف کے بیشتر علاقوں میں مزید کنٹینرز پہنچ رہے ہیں۔

جہاں ایک کنٹینر تھا وہاں کرین کی مدد سے اس کے اوپر دوسرا کنٹینر رکھا جا رہا ہے۔ جہاں پہلے دو تھے انہیں مضبوط بنانے کے لیے ریت سے بھری بوریوں سے مزید بلند کیا جا رہا ہے۔

اطراف کی جو سڑکیں پہلے کھلی ہوئی تھیں وہاں بھی صرف ایک گاڑی گزرنے کا راستہ چھوڑ کر باقی جگہ کنٹینر سے بند کر دی گئی ہے۔ سڑکوں پر مزید کنیٹنر اور ان کے ساتھ کرینیں بھی موجود ہیں۔

راستے بند کرنے کے لیے اس قدر کنٹینرز اور سیکورٹی موجود ہے کہ یہ دارالحکومت کا ریڈ زون نہیں بلکہ کوئی بندرگاہ معلوم ہو رہی ہے، جہاں سے سامان کی نقل و حمل ہوتی ہے۔

اسلام آباد کے شہریوں کو مولانا فضل الرحمٰن کی اگلی حکمتِ عملی کے اعلان کا انتظار ہے کہ اب کیا ہو گا۔ کیا وہ ڈی-چوک جائیں گے یا حکومت کو مزید وقت دیں گے۔

یہ وہ سوال ہے کہ جو ہر کوئی ایک دوسرے پوچھ بھی رہا اور خود بھی جواب کی تلاش میں ہے۔

ایک خاتون کہنے لگیں کہ یہ ہر سال اکتوبر نومبر میں ہی دھرنے کیوں ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا مطلب، دھرنے اور احتجاج کا مہینوں سے کیا تعلق ہے؟

اُس پر انہوں نے جواب دیا کہ یاد ہے جب سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کا فیصلہ سنایا تھا تو اس کے بعد بھی کتنے دن راستے بند تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو 31 اکتوبر 2018 کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج کیا تھا اور اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا تھا۔ تحریکِ لبیک نے اکتوبر 2017 میں حلف نامہ میں ختم نبوت کے معاملے پر بھی دھرنا دیا تھا۔

ویسے 2012 کے بعد سے اب تک ہونے والے کئی دھرنوں کے سبب راولپنڈی اسلام آباد کے شہری کسی حد عادی ہو گئے ہیں اور کچھ حل بھی اُن کے پاس موجود ہیں۔

ایک خاتون جو روزانہ ملازمت پر جاتی ہیں نے مجھے بتایا کہ انہیں فیض آباد کو عبور کرنے کے لیے اندر کے تمام راستے معلوم ہیں۔ وقت تو زیادہ لگتا ہے، لیکن وہ اپنے دفتر پہنچ ہی جاتی ہیں۔

مسلم لیگ، اے این پی اور دیگر جماعتوں کے کارکنان کی تعداد انتہائی کم

محمد جلیل اختر، اسلام آباد -- اتوار، 03 نومبر 2019

جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد میں سیکٹر ایچ-نائن میں موجود ہے جہاں وہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے آئندہ کے لائحہ عمل کے اعلان کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔

مولانا فضل فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کا الٹی میٹم دیا تھا یہ مہلت اتوار کی شب ختم ہونی ہے۔

اتوار کو اگرچہ دن میں مرکزی اسٹیج سے مختلف رہنماؤں نے تقاریر کیں، جس میں زیادہ تر رہنماؤں نے وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ ان سے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان مقررین میں جے یو آئی (ف) کا کوئی بڑا رہنما شامل نہیں تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'ہم بھی فیصلے کے انتظار میں ہیں'

آزادی مارچ کے شرکا کی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ میں مرکزی اسٹیج کے سامنے موجود تھی جبکہ جے یو آئی (ف) کے رضا کار بدستور سیکورٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

آزادی مارچ کے شرکا میں نمایاں تعداد جے یو آئی کے کارکنوں کی ہی نظر آئی اگرچہ مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے بھی چند ایک کارکن آزادی مارچ میں نظر آئے۔ لیکن ان کی تعداد اتوار کو قابل ذکر نہیں تھی۔

ہفتے کی شام کو مولانا فضل الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ دنوں میں اہم فیصلے سامنے آ سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ان فیصلوں کی وضاحت نہیں کی تھی۔

جے یو آئی (ف) کے کارکن بدستور مولانا فضل الرحمٰن کے آئندہ اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کشمیر ہائی وے پر خیمہ بستی آباد

اتوار کو مارچ کے شرکا میں اکثر اپنے کیمپوں میں آرام کرتے ہوئے نظر آئے، جب کہ کئی کارکن جھنڈے اٹھائے ٹولیوں کی صورت میں گھوم رہے تھے۔

لاہور سے آئے ہوئے جمال عبد الناصر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کے کارکن اپنے قائد کے حکم کے پابند ہیں۔

اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر وزیر اعظم عمران استعفیٰ نہیں دیں گے تو آزادی مارچ کو اسلام آباد کے ڈی-چوک کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں۔ اس صورت میں بعض حلقوں کی طرف سے تصادم کے خدشے کا بھی اظہار کیا جا چکا ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے کارکن جمال عبد الناصر

تاہم، جے یو آئی کے کارکن جمال عبد الناصر کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست امن پر مبنی رہی ہے اور وہ امن کے داعی رہے۔

جمال عبد الناصر کے بقول، دیگر حلقوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمٰن تحمل کے ساتھ ایک تحریک لے کر چل رہے ہیں، اس لیے حالات کو ایسے موڑ پر نہیں لانا چاہیے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔

کراچی سے آئے ہوئے کارکن سلیم اللہ خان نے کہا کہ انہوں نے آزدی مارچ میں شرکت کے لیے بھرپور تیاری کی ہے۔ وہ اسلام آباد میں تین ماہ رہنے کے لیے تیار ہو کر آئے ہیں۔

جمعیت علماء اسلام کے کارکن سلیم اللہ خان

سلیم اللہ خان کے بقول، ہم یہاں بھرپور تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔ جب تک ہماری قیادت ہمیں یہاں سے واپس چلے جانے کے لیے نہ کہے ہم واپس نہیں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 2014 میں چار حلقے کھلوانے کے لیے ڈی-چوک پر 126 دن دھرنا دیا۔ اسلام آباد کی سڑکوں کو بلاک کیا۔ پی ٹی پر حملہ کیا۔ ہم جمہوری حق لینے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے ہیں۔

سلیم اللہ خان نے کہا کہ ہر حال میں ہم اپنی قیادت کی ہدایت پر عمل کریں گے۔

'ان لوگوں کو واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں'

علی رانا، اسلام آباد -- ہفتہ، 02 نومبر 2019

اسلام آباد میں 'آزادی مارچ' کی جلسہ گاہ میں پہنچنا اس قدر آسان نہیں۔ کنٹینرز نے ایک بار پھر اس شہر کی سڑکوں کو جگہ جگہ سے بند کر رکھا ہے۔ تین مختلف مقامات سے جلسہ گاہ تک پہنچنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد چوتھی جگہ سے پشاور موڑ پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے، جہاں ہاتھوں میں کیمرہ اور ٹرائی پوڈ ہونے کی وجہ سے اپنا تعارف کرانے کی ضرورت نہیں پڑی۔

انصار الاسلام کے رضاکاروں کو شاید میڈیا کے حوالے سے خصوصی بریفنگ دی گئی تھی کیوں کہ وہ تمام صحافیوں کے ساتھ بہت احترام کے ساتھ پیش آ رہے تھے۔ کسی بھی میڈیا ورکر کو کہیں بھی جانے سے روکا نہیں جا رہا تھا۔

خواتین پر پابندی کے حوالے سے کل تک جو خدشات اور شکایات تھیں، بڑی حد تک ان کا بھی ازالہ ہو چکا تھا اور کئی خاتون صحافی آرام سے اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں۔ البتہ، ایک نمایاں بات یہ تھی کہ ان خاتون صحافیوں نے بھی اپنے سروں پر دوپٹے اوڑھ رکھے تھے جو اپنی روز مرہ زندگی میں دوپٹہ نہیں لیتیں۔

آزادی مارچ میں شریک ایک شخص دستی آئینے کی مدد سے مونچھیں تراش رہا ہے۔

ماضی میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کی طرح یہاں بھی خیمہ بستی آہستہ آہستہ وجود میں آ رہی ہے۔ کوئی کیمپنگ سائٹ والا اور کوئی رہائشی خیمہ لے کر آیا ہے اور کسی نے شامیانے تلے ہی اپنی استطاعت کے مطابق، قیام کا بندوبست کر رکھا ہے۔

اسٹیج سے کچھ ہی فاصلے پر ایک خیمے کے باہر سولر پلیٹس پڑی دیکھیں جن کے ساتھ موبائل فونز کے چارجر لگے ہوئے تھے۔ خیمے میں داخل ہوئے تو وہاں میری ملاقات خضدار سے آئے میر محمد مینگل سے ہوئی۔ میر محمد مینگل چار دن کا سفر کرکے یہاں پہنچے ہیں۔ میرے خیمہ میں آنے پر انہوں نے فوری طور پر اپنی جگہ میرے لیے خالی کی اور فرشی نشست پر بیٹھنے کا کہا۔

آزادی مارچ میں شریک مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک بڑے خیمے میں نشست جمائے بیٹھے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے قریب موجود لڑکوں کو اشارہ کیا جنہوں نے خیمے کے کونوں میں پڑا کھانے پینے کا سامان میرے سامنے رکھ دیا۔ میں حیرانی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ جب سوال کیا کہ یہ سب بلوچستان سے لائے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ بالکل۔ ہم تو یہاں ایک عرصے تک بیٹھنے کے لیے آئے ہیں۔ جب تک قائد کا حکم ہے، ہم یہیں رہیں گے۔

میر محمد مینگل کے راشن کے ذخیرے میں بھنی ہوئی گندم کے دانے جنہیں 'دانکو' اور موٹی موٹی روٹی جسے 'کلنچہ' کہا جاتا ہے، بھی موجود تھے۔ اس کے ساتھ بھنے ہوئے کالے چنے اور بعض ایسی اشیا بھی تھیں جو ایک عرصے تک قابلِ استعمال رہتی ہیں۔

میر محمد مینگل نے کہا کہ انہیں یہاں رہنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ "ہمارے علاقے میں تقریباً ایسا ہی موسم ہے۔ وہاں گھر پر رہتے ہیں۔ یہاں خیمے میں رہ رہے ہیں۔

آزادی مارچ میں شریک جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکن پنڈال میں اخبارات کے مطالعے میں مصروف ہیں۔

رفعِ حاجت سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے گھروں میں تو کوئی باتھ روم نہیں ہوتا۔ رفعِ حاجت کے لیے وہاں بھی باہر جاتے تھے۔ یہاں پر بھی ایسے ہی جا رہے ہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ایک اور خیمہ دیکھا جو کوئٹہ کے شکور خان کا تھا۔ اندر بلوچی انداز میں سجاوٹ اور بیٹری کے ذریعے خیمے کے اندر روشنی کا باقاعدہ بندوبست تھا۔ لیکن اس خیمے میں اسٹریچر نما بیڈ تھے جن کے بارے میں پتہ چلا کہ افغانستان میں تعینات نیٹو فوج کے اہلکاروں کے زیرِ استعمال رہنے والے یہ بیڈ بلوچستان میں مختلف جگہوں پر فروخت ہوتے ہیں۔

شکور خان کے پاس ایسے چار بیڈ موجود تھے جن پر وہ اپنے خیمے کے باہر اپنے علاقے سے آنے والے دیگر افراد کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے۔

اس خیمہ بستی اور یہاں کے لوگوں کا اطمینان دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کو جانے کی کوئی جلدی نہیں۔ اطمینان کے ساتھ بیٹھے یہ لوگ ایک عرصے تک یہاں رہ سکتے ہیں۔ واپس جانے لگا تو ایک اور خیمے پر نظر پڑی جس پر 'یو این ایچ سی آر' لکھا تھا۔ مجھے خیمے کو گھورتا دیکھ کر ایک نوجوان قریب آیا اور ہاتھ ملا کر بولا "یہ خیمہ زلزلے کے دنوں میں ملا تھا۔ اب یہاں کام آرہا ہے۔"

آزادی مارچ میں شریک کارکن ایک ٹینکر سے آنے والے پانی سے نہانے میں مصروف ہیں۔

'مارچ دھرنے میں بدل چکا ہے'

گیتی آرا، اسلام آباد​ -- ہفتہ، 02 نومبر 2019

مولانا فضل الرحمٰن جمعے کی رات اپنی تقریر میں یہ اعلان کر چکے تھے کہ ان کا مطالبہ دو دن کے اندر حکومت کا استعفی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مارچ باضابطہ طور پر دھرنے میں بدل چکا ہے۔

ہفتے کی صبح پنڈال کے کیا حالات ہوں گے، یہ جاننے کے لیے جب وائس آف امریکہ کی ٹیم ایچ-نائن کی طرف روانہ ہوئی تو جی-الیون سے نکلتے ہی بہت سے افراد گرم چادریں اوڑھے اجنبیوں کی طرح ایچ-نائن سے کہیں آگے گرین بیلٹ پر چہل قدمی کرتے دکھائی دیے۔ ان کی راستوں سے نا آشنائی اور کسی کسی کے ہاتھ میں نظر آنے والے کالے اور سفید دھاری دار جھنڈے سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ بھی پنڈال میں ہی رات گزار کر آ رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

آزادی مارچ میں حلوے اور پراٹھوں کا ناشتہ

گراؤنڈ کے واک تھرو گیٹ سے اندر جانے سے پہلے جی یو آئی (ف) کے ہی ایک کارکن نے دو رضاکاروں کو میرے ساتھ کر دیا۔ اندر داخل ہوئی تو کشمیر ہائی وے ایک بہت بڑا فٹ پاتھ معلوم ہوئی جس پر جگہ جگہ دریاں بچھائی گئی تھیں۔

آدھ کھلے کمبل اور ساتھ میں رکھی ناشتے کی اشیا سے لگتا تھا کہ شاید زیادہ تر لوگ سات آٹھ بجے ہی اٹھے تھے۔

اس دوران میں نے اپنی ٹیم سے رابطہ کرنے کہ کوشش کی جو پنڈال کی دوسری جانب سے داخل ہوئی تھی۔

رضا کار مجھے ڈی ایس این جی تک پہنچا کر واپس ہو لیے جب کہ میں نے ایک دو شرکا سے بات کرنے کی کوشش کی۔

عبدالغفور کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا اور وہ تین روز سے اپنے کئی دوستوں اور بیٹوں کے ساتھ اسی مارچ کے لیے یہاں آئے تھے۔

پوچھنے پر کہ ایک دن کا مارچ دو دن کے دھرنے میں بدل چکا تھا، کیا انہوں نے اس کے بارے میں سوچا تھا کہ ایسا ہوا تو وہ کیا کریں گے؟ وہ کہنے لگے کہ انہیں بالکل پتہ نہیں تھا کہ ایسا ہو گا چونکہ وہ اپنے قائد مولانا فضل الرحمٰن کے کہنے پر یہاں آئے ہیں اس لیے چاہے دو دن کا قیام ہو یا چار ماہ کا انہیں اس کی پرواہ نہیں۔

ان کے بیٹے نے اس دوران تکیوں اور کمبل کے ساتھ پڑے سامان کی طرف اشارہ کیا جو یقیناً دو دن سے زیادہ کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتا تھا۔

پنڈال کو دیکھنے پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آئے۔ لیکن قابل غور بات جے یو آئی (ف) کی حامی سیاسی جماعتوں کے ٹینٹ تھے جن کے نیچے ان کا کوئی کارکن موجود نہیں تھا۔

پوچھنے پر پتا چلا کہ اب کسی پارٹی کا کوئی کارکن اسی وقت آئے گا جب ان کی پارٹی قیادت یہاں موجود ہو گی۔

اسی دوران شور شرابے نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ کشمیر ہائی وے جو کہ اب صرف دھرنا شرکا کے زیر استعمال تھی اس پر کپڑے کا پتلا اٹھائے ایک ہجوم کونے میں لگے کنٹینر کہ طرف بڑھ رہا تھا، جس پر کھڑے ہو کر کل مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر قائدین نے خطاب کیا تھا۔

قریب جانے پر سنائی دیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی جا رہی تھی جب کہ پتلا بھی ان ہی کی علامت تھا، جسے بعد میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی، لیکن آخر میں صرف زمین پر پٹخنے پر اکتفا کر لیا گیا۔

پتلا اٹھائے ایک ٹولی نعرے بازی کرتی رہی جب کہ آس پاس بیٹھا ہجوم ناشتے میں حلوے اور گرم روٹیاں کھانے کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتا انہیں دیکھتا رہا، جیسے کسی ٹی وی سیریل کا دلچسپ منظر دیکھنے میں مشغول ہوں۔

آزادی مارچ کے شرکا کے اسلام آباد میں ڈیرے

اس دوران میڈیا والے اپنی گاڑیوں کے ساتھ مستعد کھڑے تھے کہ جانے کیا ہونے والا ہے اور کیا فلم بند کرنا پڑ جائے۔

ناشتے میں چاٹ شاید کم لوگوں میں ہی مقبول ہو گی۔ لیکن، یہاں اس کی مانگ کافی زیادہ تھی۔

کسی کو کہیں نہ آنے کی جلدی تھی نہ جانے کی۔ اتوار کی شام کا انتظار کیسے کیا جائے اس کا توڑ نکالنے والے نکال چکے تھے۔

جب میں کام ختم کر کے پنڈال سے جا رہی تھی تو پانچ چھے افراد کی کئی ٹولیاں اسلام آباد کی سیر کی غرض سے پنڈال کنارے کھڑے ٹیکسی ڈرائیوروں سے بھاؤ تاؤ کر رہی تھیں۔ اب بھلا اسلام آباد کی نومبر کی ہلکی سرد دوپہر کون ٹینٹ میں بیٹھ کر گزار سکتا ہے؟

'مولانا جو کہیں گے وہی ہوگا'

سارہ حسن، اسلام آباد​ -- جمعہ، یکم نومبر 2019

اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے پر آزادی مارچ کے شرکا کا یہ بظاہر پہلا پڑاؤ ہے۔ جی نائن کے اشارے پر لگے کنٹینر سے اندر جانے کی کوشش کی تو سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک اہلکار نے یہ کہہ کر روک دیا کہ "اندر مت جائیں کیا کریں گی؟ بہت تنگ کریں گے۔"

میں انہیں نظر انداز کرتے ہوتے اندر داخل ہوئی تو کشمیر ہائی وے پر مولانا فضل الرحمٰن کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ داخل ہوتے ہی سات آٹھ لڑکوں نے مجھے گھیر لیا اور پشتو زبان میں بات کی۔

مجھے پشتو سمجھ نہیں آئی تو انہوں نے کہا کہ "یہاں کیوں آئی ہو؟" میں نے جواب دیا کہ میڈیا سے ہوں اور کوریج کے لیے آئی ہوں اور انہیں اپنا مائیک دکھایا۔ میں نے جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم انصار السلام کے رضاکار سے بات کی اور کہا کہ ہمیں اندر جانے دیں۔

چند رضا کاروں نے آپس میں گفتگو کرنے کے بعد ہمیں اپنے حصار میں لیتے ہوئے کنٹینر پر بنے مرکزی اسٹیج کے قریب پہنچا دیا۔

SEE ALSO: 'فضل الرحمٰن کے مارچ سے پاکستان کے دشمن خوش ہو رہے ہیں'

کشمیر ہائی وے سے ملحق ایک گراؤنڈ جلسے کے لیے مختص تھا لیکن آزادی مارچ کے شرکا کشمیر ہائی وے پر موجود تھے۔

اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا ذکر گو کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے واقع ڈی چوک یا فیض آباد کے مقابلے میں کم ہی ہوتا ہے، لیکن دارالحکومت کی اس شاہراہ کا شمار اہم ترین شاہراہوں میں ہوتا ہے۔

کشمیر ہائی وے سے گزرتے ہوئے آپ اسلام آباد سے لاہور یا پشاور جانے کے لیے موٹر وے پر سفر شروع کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کو بھی یہی سڑک جاتی ہے۔

آزادی مارچ کے شرکا کا مرکزی اسٹیج جی نائن پر بنایا گیا ہے اور کشمیر ہائی وے جی ٹین سے جی ایٹ کے علاقے تک بند ہے۔

ہمیں دور دور تک جے یو آئی کے جھنڈے دکھائی دیے۔ عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا عوامی ملی پارٹی اور کہیں کہیں مسلم لیگ نواز کے جھنڈے بھی دکھائی دیے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'مولانا نے حکم دیا تو اپنی جان بھی دے دیں گے'

جلسے کے شرکا کی تعداد اندازاً ہزاروں میں تھی جن میں نظم و ضبط دکھائی دے رہا تھا۔ اسٹیج سے نمازِ جمعہ کا اعلان ہوتے ہی چند لمحوں میں ہی صف بندی ہو گئی۔ کسی نے چٹائی بچھا کر تو کسی نے اپنا رومال بچھا کر نماز ادا کی۔

وہاں انصار السلام کے رضاکار بھی موجود تھے جو زرد لباس میں ملبوس تھے۔ ایک سیٹی اور ایک چھڑی تھامے یہ رضاکار ہزاروں افراد کے مجمع کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

ہم نے مارچ کے شرکا سے بات کی کہ وہ کیا سوچ کر یہاں آئے ہیں؟ ان میں بیشتر کا جواب یہی تھا کہ "مولانا جو کہیں گے وہی ہوگا۔ ہم ان کی ہر بات پر لبیک کہیں گے۔"

میں نے پوچھا کہ کیا ڈی چوک بھی جائیں گے؟ جواب میں انہوں نے یہی کہا کہ "جو مولانا کہیں گے وہیں کریں گے۔"

ماضی کے دھرنوں کے برعکس اس مجمعے میں خواتین نہیں تھیں۔ منتظیمن نے اسٹیج سے کہا کہ "ہم نے خواتین اور موسیقی کے بغیر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کیا ہے۔"

آزادی مارچ کے شرکا کی اسلام آباد میں پہلی صبح

آزادی مارچ کے شرکا سے بات کرتے ہوئے مجھے رضا کاروں نے کئی بار تاکید کی کہ آپ شرعی پردہ کریں۔ ہر بار اُن کے اصرار پر میں اپنا چہرہ دوپٹے سے چھپانے کی کوشش کرتی رہی۔

آزادی مارچ میں لاؤڈ اسپیکر پر بجنے والی دھن موسیقی سے قدرے مختلف تھی۔ کم و بیش نعت کی دھن سے مماثلت رکھتا ایک نغمہ بج رہا تھا جس کے الفاظ تھے کہ "مولانا آ رہا ہے، مولانا آ رہا ہے۔"

شرکا اپنے کھانے کا انتظام بھی بظاہر اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے تھے اور کشمیر ہائی وے کے اطراف جا بجا کھانے پینے والے اپنی اشیأ فروخت کر رہے تھے۔

نماز کی ادائیگی کے بعد میں دفتر واپس آنے کے لیے روانہ ہو رہی تھی تو سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ "میڈم کتنے لوگ ہوں گے؟ کیا پانچ لاکھ ہیں؟"

SEE ALSO: فضل الرحمٰن کی عمران خان کو استعفے کے لیے دو دن کی مہلت

'موجودہ حکومت کو جانا ہی ہو گا'

گیتی آرا، اسلام آباد -- جمعرات، 31 اکتوبر 2019

جمعیت علماء اسلام (ف) نے اپنے آزادی مارچ کے سفر کا آغاز خیبر پختونخوا سے کرنے کے بجائے سندھ سے کیا تھا جو ایک حیران کن فیصلہ تھا۔ کیونکہ عام خیال یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو خیبرپختونخوا میں دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ عوامی حمایت حاصل ہے۔

ستائیس اکتوبر سے شروع ہونے والے اس کارواں کا رخ اسلام آباد کی طرف تھا۔ لیکن وفاقی دارالحکومت میں داخلے کے راستے کا واضح تعین نہیں کیا جا رہا تھا کہ یہ کارواں اپنی منزل، اسلام آباد کے علاقے ایچ نائن میں واقع جلسہ گاہ تک کس راستے سے پہنچے گا۔

صورتِ حال اس وقت کچھ واضح ہوئی جب آزادی مارچ اسلام آباد ٹول پلازہ کراس کر چکا تھا۔ اس دوران اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے بیشتر راستے مکمل بند تھے۔

آزادی مارچ کی اسلام آباد آمد: دارالحکومت میں کیا تیاریاں ہیں؟

سڑکوں کی بندش کا سلسلہ جمعرات کی صبح سے ہی جاری تھا۔ لیکن پنڈال تک کیسے ہہنچا جائے اور ایک خاتون صحافی کا وہاں جانا کس حد تک محفوط ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب پنڈال پہنچ کر ہی مل سکتا تھا۔

آزادی مارچ کرال اور کھنہ پل سے ہوتے ہوئے جلسہ گاہ کی طرف بڑھتا رہا۔ کارواں میں جیپوں سے لے کر بڑے ٹرک تک ہر قسم کی گاڑیاں ہی شامل تھیں جن میں جمعیت علماء اسلام (ف) کا کالی دھاریوں والا جھنڈا اٹھائے سیکڑوں افراد نعرے لگاتے ہوئے جا رہے تھے۔

سڑکوں کے کنارے کھڑے اسلام آباد کے مقامی شہری بھی آزادی مارچ دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ تیزگام ریل حادثے کی وجہ سے اعلان کیا جا چکا تھا کہ جلسہ جمعے کی نماز کے بعد ہوگا۔ لیکن دیگر سیاسی جماعتیں جن میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن اور رہنما شامل تھے، پنڈال میں پہنچ چکے تھے۔

SEE ALSO: مولانا فضل الرحمٰن کی مفاہمت سے مزاحمت تک کی سیاست

رات گیارہ بجے کے بعد ایچ نائن اور کشمیر ہائی وے کے پار جی نائن کے بند پیٹرول پمپ اور اس کے ارد گرد کے علاقے ویرانے کا منظر پیش کر رہے تھے جہاں صرف چند گاڑیاں کھڑی تھیں جن کے مالکان بھی شاید پنڈال میں جا چکے تھے۔

پولیس کے ٹرک اور کنٹرینرز کو پار کرنے کے بعد جب وائس آف امریکہ کی ٹیم جلسہ گاہ کے نزدیک پہنچی تھی تو وہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ جے یو آئی (ف) کی کسی بھی خواتین کے ونگ کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں اور ایچ نائن کے گراؤنڈ پر صرف مرد کارکنان جھنڈے لہراتے نظر آرہے تھے۔

میڈیا کی گاڑیاں کئی گھنٹوں قبل ہی گراونڈ میں پارک کر دی گئی تھیں۔ اونچا نیچا میدان ہونے کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ جلسہ گاہ میں کتنے افراد موجود ہیں۔ لیکن گاڑی پر کھڑے ہو کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔

انصار الاسلام کے رضاکار 'آزادی مارچ' میں آگے آگے

بہت سے افراد کو چونکہ یہیں رات گزارنا تھی، لہٰذا گراؤنڈ کے ایک حصے میں خیمے بھی لگائے گئے تھے جہاں بہت سے افراد کمبل اٹھائے آتے جاتے نظر آرہے تھے۔

اس دوران اسپیکرز پر مستقل مختلف اعلانات بھی کیے جارہے تھے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خطاب سے متعلق اعلانات کو دہرایا جا رہا تھا۔

اسی دوران ہماری ٹیم کو لائیو کوریج کرنی تھی جو انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے ممکن نہیں ہو سکی۔ لہٰذا، ہمیں ریکارڈنگ پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

گراؤنڈ میں خواتین کی عدم موجودگی میرے لیے بطور ایک خاتون صحافی، عجیب سی تشویش کی وجہ بن رہی تھی۔ اس لیے ہماری ٹیم ریکارڈنگ ختم کرتے ہی وہاں سے نکل پڑی جب کہ جلسے میں شریک ہونے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔

جب ہماری ٹیم اپنی گاڑی تک پہنچ رہی تھی۔ اسی وقت بلاول بھٹو کی آواز دور تک گونج رہی تھی کہ "موجودہ حکومت کو جانا ہی ہو گا۔"

SEE ALSO: پاکستان میں دھرنوں اور لانگ مارچ کی تاریخ

'حیرت ہوئی اتنا بڑا مارچ آسانی سے گزر بھی گیا'

ضیاء الرحمٰن، لاہور -- منگل، 29 اکتوبر 2019

جمعیت علماء اسلام (ف) کا آزادی مارچ 29 اور 30 اکتوبر کی درمیانی شب لاہور پہنچا۔ مارچ کا پہلا استقبال لاہور کے داخلی راستے ٹھوکر نیاز بیگ پر کیا گیا جہاں مسلم لیگ ن کی جانب سے استقبالیہ کیمپ لگایا گیا تھا۔ یہ وہی جگہ ہے جس کے قریب قومی احتساب بیورو (نیب) کا علاقائی دفتر اور حوالات بھی موجود ہے۔

آزادی مارچ کے ٹھوکر نیاز بیگ سے گزرنے کے بعد میں نے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ مارچ کے گزرنے کے باعث مسافروں کو کتنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور پیٹرولنگ پولیس کی کتنی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔

نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے ایک افسر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اُن کے محکمے نے مولانا صاحب کے مارچ کے باعث پولیس کی اضافی نفری اور پیٹرولنگ گاڑیوں کی ڈیوٹی لگائی تھی۔ لیکن اُنہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کسی بھی افسر اور اہلکار کو اضافی کام نہیں کرنا پڑا اور مارچ کے شرکا ایک نظم وضبط کے ٹھوکر نیاز بیگ چوک کی طرف بڑھتے گئے۔

آزادی مارچ کا لاہور شہر میں پانچ مقامات پر استقبال کیا گیا۔ جن میں ٹھوکر نیاز بیگ کے علاوہ، ملتان چونگی، اسکیم موڑ، موڑ سمن آباد، چوبرجی، داتا دربار اور بتی چوک شامل تھے۔ جس کے بعد آزادی مارچ کے شرکا نے گریٹر اقبال پارک (مینار پاکستان) میں پڑاؤ ڈال دیا۔

پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے آزادی مارچ کے شرکا پر سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں سے نظر رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آزادی چوک میں کچھ اضافی کیمرے بھی لگائے گئے تھے۔

آزادی مارچ کے شرکا 29 اور 30 اکتوبر کی درمیانی شب لاہور پہنچے تھے۔

میں نے پنجاب حکومت کے ایک وزیر سے پوچھا کہ آپ کی جماعت ماضی میں مینار پاکستان گراؤنڈ میں جلسہ کرتی تھی تو پارک اور پودوں کو نقصان پہنچتا تھا۔ لیکن اس آزادی مارچ کے دوران ایسا کچھ نہیں ہوا؟ جس پر وزیر صاحب مسکرا کر بولے پرانی باتیں چھوڑیں، مولانا کے آزادی مارچ سے بھی یہی امید تھی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

میں نے گریٹر اقبال پارک کی انتظامیہ سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام کے کارکن سیلفیاں بناتے رہے لیکن پارک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ان کے رضا کار خود حفاظتی ڈیوٹیاں دیتے رہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

آزادی مارچ کے شرکا کا لاہور میں روایتی ناشتہ

اسلام آباد کے برعکس پنجاب حکومت کو لاہور شہر میں آزادی مارچ کے باعث اسکولوں کو بند کرنا پڑا نہ ہی سڑکوں کو بند کیا گیا۔ بلکہ میڑو بس سروس بھی معمول کے مطابق چلتی رہی۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی چوک میں مارچ کے شرکا سے خطاب کیا۔ جہاں سے میٹرو بس کا ٹریک اور اسٹیشن چند فٹ کے فاصلے پر تھا۔

جماعت کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام کے کارکنوں نے مارچ میں شریک کسی بھی شخص کو میٹرو بس پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرنے دی۔ آزادی مارچ کے شرکا اپنے قائد کو قریب سے دیکھنے اور سننے کی غرض سے میٹرو بس کے حفاظتی جنگلے پھلانگتے ہوئے بس کے ٹریک تک تو پہنچے، لیکن بس کی آمد و رفت میں رکاوٹ نہیں بنے۔ اور دوسرے لوگوں کو بھی منع کرتے رہے کہ میٹرو بس کے ٹریک پر کوئی نہیں جائے گا۔

میں نے جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا امجد خان سے اس بابت پوچھا تو وہ بولے کہ ہمارے کارکنوں کی تربیت اسی انداز میں کی گئی ہے کہ پرامن احتجاج کریں اور سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کارکن رات بھر مینار پاکستان گراؤنڈ میں موجود رہے۔ وہاں انہوں نے کھانا بھی کھایا اور ناشتہ بھی کیا لیکن آپ وہاں خود جا کر دیکھ لیں مکمل صفائی ہے۔ یہ مارچ ہمارے نظم و ضبط کا بھی عکاس ہے۔

مارچ کے دوران لاہور میں میٹرو بس معمول کے مطابق چلتی رہی۔

آزادی مارچ کے اسلام آباد روانہ ہونے کے بعد میں نے سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر ایسے مارچ کی کوریج کے دوران صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے لیکن مولانا صاحب کے مارچ میں ایسا کچھ نہیں ہوا؟ جس پر احمد ولید نے کہا کہ توقع تو اُنہیں بھی یہی تھی کہ لاہور شہر کی سڑکیں بند ہوں جائیں گی اور شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن کہیں سے بھی ایسی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

ملتان میں آزادی مارچ کا پڑاؤ

جمشید رضوانی، ملتان -- پیر، 28 اکتوبر 2019

میں 28 اور 29 اکتوبر کی درمیانی رات ملتان کے بائی پاس پر ایک غیر آباد رہائشی اسکیم فاطمہ جناح ٹاؤن میں موجود تھا۔ جسے ایک دن پہلے ملتان کی انتظامیہ نے جے یو آئی کی مقامی انتظامیہ کو مارچ کے شرکا کے لیے مختص کیا تھا۔ انتظامیہ نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ مارچ کے قافلوں کو شہر میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی سب کو ادھر رکنا ہو گا۔

ہم حیران تھے کہ جے یو آئی کے مقامی عہدیدار یہ شرط کیسے مان گئے؟ عام طور پر ہر سیاسی جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ وہ شہر کے گنجان آباد علاقوں سے گزرے۔ شہریوں کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرے لیکن ایسا نہیں ہوا اس بات نے بہرحال کچھ سوچنے پر مجبور کیا کہ ایسا کیوں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

آزادی مارچ اپنی منزل کی جانب گامزن

اس دوران بلوچستان سے جے یو آئی کے صوبائی امیر مولانا عبد الواسع کی قیادت میں بلوچستان کا بسوں، ویگنوں اور کاروں پر مشتمل قافلہ ملتان پہنچا۔ اور انہیں فاطمہ جناح ٹاؤن کی راہ دکھا دی گئی۔ بغیر مزاحمت اور احتجاج کے وہ خاموشی سے اسی سنسان اور غیر آباد کالونی کے عین درمیان پہنچ گئے۔

ہم دیکھ رہے تھے کہ اس کے کچھ دیر بعد کسی گاڑی میں لگے ساؤنڈ سسٹم سے چار مختلف زبانوں اردو، پشتو، بلوچی اور سندھی میں اعلان ہوا کہ "سالار کا حکم ہے سب لوگ آدھے گھنٹے کے اندر سو جائیں اور آرام کریں ہمارا سفر طویل ہے اور پھر صبح لاہور کے لیے روانہ ہونا ہے۔"

اس اعلان کے ہوتے ہی قافلے میں شامل لوگوں نے اپنی اپنی کاروں، ویگنوں اور بسوں میں رکھے سامان میں سے چادر اور چٹائیاں لے کر بچھائیں اور خالی پلاٹوں میں سو گئے۔ کچھ لوگ اپنے ہمراہ چولہے لائے تھے وہ اپنے لیے کچھ پکانے لگے۔

کوئی آلو بنا رہا تھا اور کوئی دال اور کوئی روٹی پکا رہا تھا۔ لیکن چند منٹ بعد وہ بھی برتن سمیٹ کر سونے کی تیاری میں لگ گئے۔ یہ یاد رہے کہ ابھی ان کے قائد مولانا فضل الرحمٰن نے سندھ سے قافلے کی صورت میں ملتان پہنچنا تھا۔ لیکن بلوچستان سے آنے والے سیکڑوں افراد اس کی پرواہ کیے بغیر اپنی نیند پوری کر رہے تھے کیوں کہ سالار کا حکم تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'اسلام آباد میں ایک مہینہ بھی رک سکتے ہیں'

جے یو آئی کا قافلہ سکھر سے جنوبی پنجاب میں داخل ہوا تو رحیم یارخان پہنچتے پہنچتے رات ہو چکی تھی اور یہ بات یقینی ہو گئی تھی کہ ملتان میں وہ رات تین اور چار بجے سے پہلے نہیں پہنچیں گے۔ لیکن ہمیں اطلاع ملی کہ مولانا فضل الرحمان اپنے کنٹینر سے اتر کر جیپ میں سوار ہو چکے ہیں۔ قافلہ انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور وہ تیزی سے ملتان پہنچ کر کچھ آرام کرنا چاہتے ہیں۔

قافلے میں شامل تمام گاڑیوں کو بھی ہدایت کر دی گئی کہ جلد از جلد ملتان پہنچ کر آرام کریں۔ وہی ہوا مولانا فضل الرحمان سکھر سے ملتان پہنچے تو ملتان کے بہاولپور بائی پاس چوک پر مسلم لیگ نواز کے زیادہ سے زیادہ چالیس کارکنوں نے ان کو خوش آمدید کہا۔ جن میں مسلم لیگ کے سینیٹر رانا محمود الحسن اور سابق ایم این اے عبد الغفار ڈوگر بھی شامل تھے۔

اس سے پہلے مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کے کیمپ میں آئے تو سہی لیکن زیادہ دیر رکے نہیں اور مولانا کے آنے سے پہلے واپس گھر کو روانہ ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی بائی پاس چوک سے فاطمہ جناح ٹاؤن اپنے بلو چستان سے آئے قافلے کے لوگوں کو ملے بغیر سیدھا ملتان شہر میں اپنے بیٹے کے گھر آرام کے لیے چلے گئے۔

مولانا کے ساتھ سندھ سے آنے والے قافلے کے شرکا فاطمہ جناح ٹاؤن آتے گئے اور جس کو زمین پرجہاں جگہ ملی وہ سو گیا۔ سکھر سے ملتان تک مولانا نے ایک جگہ بھی خطاب نہیں کیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'آزادی مارچ' کے شرکا نے ملتان میں رات کیسے گزاری؟

صبح کی اذان کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان سے آنے والے قافلوں کے شرکا دوبارہ بیدار ہونے لگے اور نماز کی ادائیگی بھی شروع کر دی گئی۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے پیلے اور زرد رنگ کا مخصوص لباس پہنا اور پھر وہ مختلف ورزشیں کرنے لگے۔ کچھ نے ایک دوسرے سے زور آزمائی شروع کر دی اور ایک بڑے دائرے کی صورت میں دوڑتے بھی نظر آئے۔

ان میں سے کچھ کارکنوں سے ہماری بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم مشق کر رہے ہیں۔ ہمیں آگے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہ سب اس کی تیاری کا حصہ ہے۔ اس بات سے میں چونک گیا کہ ابھی تو مارچ ملتان سے شروع ہونا ہے اور اسلام آباد پہنچنے پر ممکنہ مزاحمت کی صورت میں تیاریاں پہلے سے جاری ہیں۔

دس بجے صبح ہزاروں لوگ ناشتہ کر چکے تھے اور اپنا سامان بھی باندھ چکے تھے۔ اب وہ اپنے قائد کے انتظار میں تھے کہ وہ کب ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ قافلے میں شرکت کے لیے سندھ اور بلوچستان سے قافلے اگلے روز بھی ملتان پہنچ کر اس مارچ میں شامل ہو رہے تھے تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی اور ان میں سے ایک بڑی تعداد جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والوں کی بھی تھی۔ پہلے سے آنے والے کارکن اپنی اپنی گاڑی میں سامان رکھ کر اپنی ٹرانسپورٹ میں بیٹھے تھے یا اس کے قریب کھڑے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن اپنے ورکرز کی سیکورٹی میں فاطمہ جناح ٹاؤن پہنچے اور آتے ہی کنٹینر پر سوار ہو گئے۔ مسلم لیگ نواز کے مخدوم جاوید ہاشمی بھی ان کے ساتھ آئے اور خطاب بھی کیا لیکن اہم بات یہ ہوئی کہ مولانا فضل الرحمٰن کے خطاب سے پہلے مائیک پر بیعت مرگ کا اعلان کیا گیا اور قافلے کے شرکا سے کہا گیا کہ آپ وعدہ کریں کہ اس جدوجہد میں آپ کو اپنی جان بھی دینا پڑی تو گریز نہیں کریں گے۔

کارکنوں کی بڑی تعداد نے دونوں ہاتھ کھڑے کرکے تائید کی۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے کارکنوں سے خطاب کیا اور قافلہ لاہور کی جانب چل پڑا۔

Your browser doesn’t support HTML5

'امن تب آئے گا جب عمران خان یہاں سے جائے گا'

ایک بار پھر وہی منظر نامہ؛ دھرنا، لاک ڈاؤن، کنٹینر سیاست؟

محمد ثاقب، کراچی -- اتوار، 27 اکتوبر 2019

جمعیت علماء اسلام (ف) نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ناجائز قرار دے کر اس کے خلاف ستمبر کے آخر میں اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا تو سبھی کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اب ایک بار پھر وہی سب کچھ مناظر دیکھنے کو ملیں گے جو پانچ سال قبل تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں اور احتجاج کے دوران ہوا تھا: لاک ڈاؤن، احتجاج، دھرنا، کنٹینرز لگا کر سڑکیں بند کرنا اور پھر پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں۔

اپنے دعوے کے عین مطابق، 27 اکتوبر کو جے یو آئی کے کارکنوں نے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا۔ مولانا فضل الرحمان خود کراچی سے مارچ کی قیادت کرتے اسلام آباد کی جانب نکلے تو ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے کوریج کو نکل پڑے۔

اتوار کو کراچی کے مختلف علاقوں سے ٹولیوں کی شکل میں آنے والے قافلے سہراب گوٹھ پر جمع ہوئے۔ ان میں نظم و ضبط بھی تھا اور جذبہ اور حوصلہ بھی۔ کارکن اپنے ساتھ ضروری اشیاء لے کر نکلے تھے۔ کراچی سے جمعیت علماء اسلام کے مارچ میں شریک ہونے والوں میں نوجوان اور بزرگ سب ہی نظر آئے۔

دن بارہ بجے تک کنٹینر آچکا تھا جس پر اسٹیج سجایا گیا تھا، پیپلز پارٹی، اے این پی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ ن، جمیعت علماء پاکستان اور دیگر جماعتوں کے رہنما کنٹینر کی چھت پر جبکہ ان کے کارکن پنڈال میں تھے، جن میں سب سے غالب تعداد بہرحال جے یو آئی (ف) کے کارکنوں کی نظر آئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ سے تاجر اور ٹرانسپورٹرز پریشان

دیگر جماعتوں کی جانب سے مارچ کی حمایت اپنی جگہ، لیکن کراچی سے روانہ ہونے والے قافلوں میں مسلم لیگ ن کے گنے چنے کارکنوں کے علاوہ کوئی اور کم ہی نظر آئے۔

مارچ کے شرکا میں ہماری جتنے بھی کارکنوں سے بات ہوئی۔ ان میں سے بیشتر کو علم تھا کہ وہ کیا کرنے نکلے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے رہنما نے کیا پیغام دیا ہے۔ ان کا مقصد کیا ہے اور یہ احتجاج کیوں کرنے اسلام آباد جا رہے ہیں۔

اٹھائیس سالہ سلیمان خان نے ہمیں بتایا کہ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس حکومت نے غریبوں کو کچھ دینے کے بجائے ان کا نوالہ بھی چھین رہی ہے۔ یہ حکومت ناکام ہے جو لوگوں کی معاشی مشکلات کو بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ 45 سالہ نور محمد کا خیال اس سے بالکل مختلف تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ملک میں مہنگائی بڑھی یا نہیں مگر اس کے خیال میں "یہ حکومت تو مغربی ممالک اور غیر مسلموں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اسلام اور پاکستان کو بچانے کے لیے اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔"

کراچی سے مارچ کا آغاز ہوا تو مولانا فضل الرحمٰن کنٹینر سے نکل کر ایک پجارو جیپ میں سوار ہوگئے۔ اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ لیکن جمعیت علماء اسلام کے علاوہ اس مارچ میں جمعیت علماء پاکستان کے شاہ اویس نورانی کے علاوہ کسی جماعت کا کوئی رہنما جاتے نظر نہیں آیا۔

سندھ پولیس نے پنجاب کی سرحد تک جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کو فول پروف سیکورٹی فراہم کی۔ سندھ پولیس کے اسپیشل سیکورٹی یونٹ کا دستہ مولانا کی گاڑی کے ساتھ ساتھ رہا۔ شام میں حیدرآباد میں ہٹڑی بائی پاس کے قریب مولانا نے اپنے کارکنوں اور وہاں استقبال کے لیے موجود لوگوں سے مختصر خطاب کیا جس کے بعد وہ یہاں سے انڈس ہائی وے کے راستے لاڑکانہ روانہ ہوگئے جبکہ مارچ کے شرکاء ٹولیوں کی صورت میں نیشنل ہائی وے ہی پر گامزن رہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے: مولانا فضل الرحمٰن

ایک اہم بات جس کا ہم نے مشاہدہ کیا، وہ یہ تھی کہ سندھ کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں جہاں عام طور پر لوگ جلدی سونے کے عادی ہوتے ہیں وہاں رات دیر تک لوگ سڑکوں پر مارچ کے شرکا کے استقبال کے لیے کہیں زیادہ اور کہیں کم تعداد میں موجود نظر آئے۔ ان استقبالی کیمپس میں سے بھی زیادہ تر جمعیت کے تھے جبکہ بعض پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مقامی قیادت کی جانب سے بھی قائم کیے گئے تھے۔

مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ سندھ کے باسیوں نے کہیں مارچ کے شرکا کے لیے پانی کی بوتلوں کا انتظام کیا تھا، کہیں کھانا تقسیم کیا گیا اور کہیں پر ان کی خاطر تواضع چائے اور کھجوروں سے کی گئی۔

یوں مارچ کے شرکا قاضی احمد، مورو، نوشہرو فیروز، کنڈیارو، اور دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے رات ڈھائی بجے سکھر پہنچے جہاں سکھر بائی پاس پر ایک بڑا پنڈال لگایا گیا تھا اور بیشتر شرکا نے رات وہیں گزاری۔

شمالی سندھ کا شہر سکھر ایک مرکزی مقام کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں جمعیت کا اثر و رسوخ پہلے سے کہیں بڑھ چکا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'آزادی مارچ' سکھر سے روانہ

جمعیت علماء اسلام نے گزشتہ چند برسوں میں یہاں سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ تیزی سے بڑھایا ہے۔ یقیناً اس میں ان مدارس کا بنیادی کردار ہے جو دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ وہاں موجود زمیندار طبقہ اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کثیر تعداد میں جمعیت علماء اسلام کے حلقے میں شامل ہیں۔

جمعیت کو عوامی حمایت دلانے میں جے یو آئی کے مقتول رہنما مولانا خالد محمود سومرو اور پھر ان کے صاحبزادے مولانا راشد سومرو کی کاوشوں کا بہت بڑا کردار ہے۔

صوبے کے شمالی علاقوں میں رہنے والی مختلف برادریوں، حتیٰ کہ ہندو کمیونٹی کے لوگ بھی مولانا راشد سومرو کی شخصیت اور کردار سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ جمعیت نے پی پی پی کے بجائے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ سکھر میں جے یو آئی ایک بڑا قافلہ پنجاب کی جانب لے کر جانے میں کامیاب رہی۔ یہاں کراچی، حیدرآباد، نوشہرو فیروز، نواب شاہ، سے آنے والے شرکا کے ساتھ سکھر کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، جیکب آباد کے علاوہ بلوچستان کے اضلاع جعفرآباد، ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، روجھان جمالی، سبی اور دیگر علاقوں سے بھی لوگ یہاں آ کر 'آزادی مارچ' میں شامل ہوئے۔ اس کے نتیجے میں جمیعت قومی شاہراہ پر ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہی جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'آزادی مارچ' کراچی سے روانہ

مرکزی کنٹینر کی سیکیورٹی اور جلسوں میں نظم و ضبط کی ذمہ داری جمعیت کی نوجوان فورس 'انصار الاسلام' نے اٹھا رکھی تھی۔ خاکی شلوار قمیص پہنے، ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے یہ فورس کوئی خاص تربیت یافتہ تو نظر نہ آئی، لیکن اس کے باوجود انتظام سنبھالنے میں یہ کلیدی کردار ادا کرتے نظر آئے۔

مارچ کے شرکا اور قائدین کے ساتھ کراچی سے سکھر تک کے سفر کے دوران ہم نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی کہ کیا اس مارچ میں محض مدارس کے طلبہ ہی ہیں جن کی جمعیت کو زبردست حمایت حاصل رہی ہے یا اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بھی شامل ہیں؟

جمعیت علماء اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے، اور اس کا زیادہ تر ووٹ بینک بھی دینی رجحان رکھنے والے طبقے کا ہے۔ لیکن، اگر یہ کہا جائے کہ مارچ کے تمام تر شرکاء مدارس ہی کے طلباء ہیں تو مناسب نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ کراچی کے کئی دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اہم مدارس نے، جن میں جامعہ بنوریہ عالمیہ بھی شامل ہے، اس مارچ سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔

اس مارچ میں ہمیں شہری علاقوں سے آئے ہوئے لوگ تو خال خال ہی نظر آئے مگر زمیندار، کسان، سندھ اور پنجاب کے دیہات میں رہائش پزیر عام لوگوں کی بڑی تعداد ضرور نظر آئی۔ اور ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو موسم کی سختیوں، وسائل کی کمی اور دیگر مشکلات سے نمٹنے کے عادی ہیں۔

لیکن، ہمیں پاکستان عوامی تحریک کے 2013 اور 2014 میں ہونے والے مارچ اور دھرنوں میں جس طرح خواتین شریک نظر آئیں وہ یہاں کہیں بھی نظر نہیں آئیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

جمعیت علماء اسلام (ف) کا آزادی مارچ جاری

مارچ کے شرکا ایسے ٹرکوں اور بسوں کی چھتوں پر سوار تھے جنہوں نے موسم کی سختیوں سے نمٹنے کے لیے ترپالیں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ مارچ میں کراچی سے لائی ہوئی ایک کرین کے ڈرائیور سے ہم نے اسے لانے کی وجہ دریافت کی تو امان اللہ نے بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اسلام آباد میں پولیس کنٹینرز کھڑے کر کے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گی جس سے نمٹنے کے لیے یہ کرین ساتھ لائی گئی ہے۔

مارچ میں شریک قیادت سے گفتگو سے اندازہ ہوا کہ جمعیت علماء اسلام کے 'آزادی مارچ' کا اسلام آباد کے پشاور موڑ پر جب پڑاؤ ہوگا تو سیاست کے میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی مولانا فضل الرحمٰن ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر اپنے لیے محفوظ راستہ ضرور نکال لیں گے، کیونکہ وہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کا احتجاج عدلیہ کے احکامات کے برخلاف نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ اداروں سے لڑنے کے موڈ میں نظر آئے ہیں۔ فی الحال، ان کی نظر تحریک انصاف کی حکومت کو ٹارگٹ کرنا ہے۔

اگرچہ پارلیمنٹ میں جے یو آئی متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہے، لیکن اس نے بھی اس مارچ میں غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ لیکن قومی اسمبلی میں چند نشستیں رکھنے کے باوجود بھی مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کے خلاف اپوزیشن کا وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو اس سے قبل 2013 سے 2018 تک تحریک انصاف بڑی اپوزیشن جماعت نہ ہونے کے باجود مسلم لیگ ن کے خلاف ادا کر رہی تھی۔

تاہم، بہت سے لوگ اس مارچ کو درحقیقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی کی جنگ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مارچ کے ساتھ دو روز تک سفر میں اس بات کا اندازہ ضرور ہوگیا کہ مولانا کے سیاسی نظریات اور ان کی سیاسی حکمت عملی سے تو بھرپور اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، ان کی اصل طاقت ان کے مخلص کارکن ہیں، جو اپنی قیادت سے نظریاتی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔