پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے حزب اختلاف کے 'آزادی مارچ' کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ فضل الرحمٰن کے مارچ سے پاکستان کے دشمن خوش ہو رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کے یوم آزادی پر گلگت میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت کے ذرائع ابلاغ میں مارچ کو اس قدر دکھایا جا رہا ہے گویا مولانا فضل الرحمن بھارت کے شہری ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فضل الرحمٰن کے اسلام کی قیمت لگتی ہے۔ ان کو ڈیزل کا پرمٹ دیا جائے تو وہ بک جاتے ہیں۔ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے تو ان کا اسلام اُس طرف چلا جاتا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے احتجاج کے حوالے سے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں ایک آزادی مارچ ہو رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کس سے آزادی لینے آ رہے ہیں۔
عمران خان نے ذرائع ابلاغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں۔ میڈیا جا کر ان احتجاج کرنے والے عام افراد سے پوچھے کہ وہ کس سے آزادی لینے آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی والے کہیں گے مہنگائی ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) والوں سے پوچھیں گے تو ان کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ احتجاج میں کیوں شریک ہیں جبکہ جے یو آئی (ف) والوں سے سوال کیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ اسلام آباد پر یہودی قبضہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
عمران خان نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے ہوتے ہوئے یہودیوں کو سازش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اسلام کو ووٹ لینے اور پیسے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔ جن نوجوانوں کو اسلام کے بارے میں معلوم نہیں ہے وہ مولانا فضل الرحمٰن کو دیکھ کر سمجھیں گے کہ یہ اسلام کے ٹھیکیدار ہیں۔ ان کو دیکھ کر کوئی اسلام کی طرف نہیں آئے گا البتہ لوگ اسلام چھوڑ ضرور سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں دیے گئے دھرنے کا حوالہ دے کر انہوں نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے لوگوں کو 2014 میں تحریک انصاف کے دھرنے کے حوالے سے دیے گئے بیانات یاد ہیں۔
پشتون خوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ کا نام لے کر عمران خان کا کہنا تھا کہ محمود خان اچکزئی بھی احتجاج میں اسلام آباد آ گئے ہیں جو ہمیشہ جمعیت علماء اسلام (ف) کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) نے چار روز قبل کراچی سے اسلام آباد کی جانب 'آزادی مارچ' کا آغاز کیا تھا۔ گزشتہ روز یہ مارچ اسلام آباد پہنچا ہے۔ آج سے اس مارچ کے بعد جلسہ ہوگا جس کے بعد ممکنہ طور پر دھرنا دیا جائے گا۔ اس احتجاج میں حزب اختلاف کی اکثر جماعتیں شامل ہیں۔
گلگت میں جلسے سے خطاب میں عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ وہ زمانہ چلا گیا ہے کہ جب اسلام کا نام اقتدار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
جے یو آئی (ف) کے دھرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دھرنے میں کھانا ختم ہو جائے گا تو حکومت کھانا بھجوا دے گی۔
انہوں نے ایک بار پھر دھرایا کہ احتجاج کرنے والوں کا کسی قسم کا این آر او نہیں ملنا۔ ان سب کو معلوم ہے کہ باری سب کی آنی ہے۔
خیال رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت حزب اختلاف کے کئی رہنما اس وقت جیلوں میں ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنماوں پر کرپشن سمیت مختلف مقدمات ہیں۔
عمران خان نے خطاب میں ایک بار پھر دھرایا کہ 60 سال میں پاکستان کا قرضہ چھ ہزار ارب تھا پچھلے 10 سال میں یہ قرضہ 30 ہزار ارب ہو گیا ہے۔ ان سے سوال تو کیا جائے گا کہ اتنا قرضہ کہاں گیا۔ کیا جوا کھیلا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے معلومات جمع کر رہے ہیں حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ یہ پیسہ ان کی جیب میں گیا ہے انہوں نے منی لانڈرنگ کی ہے۔
انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اربوں کی جائیداد کے مالک ہیں اور بیرون ملک چلے گئے، ان سے حساب کا پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے شہری ہی نہیں ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کو عمران خان نے گلدستہ بھی کہا جبکہ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی یتیم جمع ہو گئے ہیں۔ سیاست کا 12 واں کھلاڑی ان کو اکسا رہا ہے کہ وہ عمران خان کا استعفے لے کر جائے گا۔
جے یو آئی کے احتجاج کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں دباو میں آکر این آر او دے دوں گا۔ میں نے 20 سال بد عنوانی کے خلاف جدوجہد کی ہے میں نے وعدہ کیا تھا کہ ایک دن ان بدعنوانی کرنے والوں کو جیل میں ڈالوں گا۔
ملک میں مہنگائی کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ سب سے زیادہ مہنگائی پیپلز پارٹی کے دور میں 20 فی صد تھی جبکہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے پہلے سال تحریک انصاف کی حکومت سے زیادہ مہنگائی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن ملک کو نقصان پہنچاتی ہے اس سے ملک غریب ہو جاتا ہے۔ ملک کے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔ بدعنوانی کے لیے ہی ادارے تباہ کیے جاتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ گزشتہ برس جتنا ٹیکس جمع کیا گیا وہ سابقہ حکومتوں کے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوا۔ حکومت کیسے لوگوں کو تعلیم اور صحت فراہم کرتی۔