جارج میسن یونیورسٹی میں ’سنٹر فار ورلڈ ریلیجن‘ کے ڈائریکٹر, پروفیسر مارک گوپن نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتا نہ ہوا، تو بقول ان کے، فوجی آپشن بھی موجود ہے۔ تاہم، انھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’راؤنڈ ٹیبل‘ میں میزبان نفیسہ ہود بھائی سے بات چیت کرتے ہوئے، پروفیسر گوپن کا کہنا تھا کہ بعض عالمی طاقتیں پہلے ہی واضح کرچکی ہیں کہ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں، فوجی آپشن موجود ہے۔
پروفیسر گوپن نے کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب روایتی طور پر ایران کے ایٹمی قوت بننے کے مخالف ہیں۔ لیکن، دیگر خلیجی ممالک بھی اس کے مخالف ہوسکتے ہیں اور وہ مخالفت کریں گے؛ جبکہ فرانس نے بھی مذاکرات کے دوران براہ راست ایسا رویہ رکھا ہے کہ کسی بھی صورت ایران کو ایٹمی قوت نہ بننے دیا جائے۔ دیگر یورپی ممالک میں بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکا جائے۔
پروفیسر گوپن نے کہا کہ اگر ڈیل ہوجاتی ہے توایران پر لگنے والی تعزیرات ختم ہوجائیں گی اور بہت سی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لئے ایران کا رخ کریں گی جس کے نتیجے میں اس ملک میں لاکھوں ڈالر کی آمدن ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان گزشتہ 30 برسوں سے سرد جنگ جاری ہے، جس میں اضافے کی صورت میں یہ خطرہ ہمسایہ ممالک تک پھیل سکتا ہے۔ لیکن، امریکہ چاہے گا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مخاصمت میں کمی آئے، تاکہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں استحکام آسکے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے اس پروگرام میں شریک دوسرے مہمان سابق پاکستانی سفارتکار، مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ خطے میں شعیہ فیکڑ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بقول اُن کے، سعودی اس بات پر پریشان ہیں کہ ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو خطے میں اس کی بالادستی قائم ہوجائے گی۔
مشتاق مہر نے کہا کہ سعودی عرب سنی مسلمانوں کا ہمنوا نہیں، لیکن ایران شعیہ مسلمانوں کا دنیا بھر میں ہمنوا ہے، اور ایران کے لئے یہ اہم ہے کہ خطے میں بالادستی کے لئے، اس کی طاقت میں اضافہ ہو، جبکہ اس کے پاس موجود مزائیل اب فرسودہ ہوچکے ہیں۔