موسمِ سرما کے اختتام پر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کا عمل پیر سے شروع ہو گیا ہے جو نومبر کے اختتام تک جاری رہے گا۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل گزشتہ سال نومبر میں رک گیا تھا۔
افغان مہاجرین کی رضاکارانہ طور پر وطن واپسی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین 'یو این ایچ سی آر' کے ایک عہدے دار قیصر آفریدی نے بتایا کہ پاکستان سے افغانستان واپس جانے والے مہاجرین کے لیے دو مراکز کھولے گئے ہیں۔
ان کے بقول پنجاب، پاکستانی کشمیر، ہزارہ ڈویژن اور خیبر پختونخوا سے افغانستان جانے والے مہاجرین کے لیے ازاخیل نوشہرہ جب کہ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں رہائش پذیر مہاجرین کے لیے کوئٹہ میں مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
ان مراکز سے رجوع کرنے والے افغان باشندوں کی مہاجرین کی حیثیت نادرا کے تعاون سے ختم کی جاتی ہے اور پھر ان لوگوں کی قانونی طور پر وطن واپسی کا عمل شروع ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وطن واپس جانے والے مہاجرین کو افغانستان پہنچنے کے بعد جلال آباد، قندھار اور کابل میں قائم 'یو این ایچ سی آر' کے مراکز سے فی کس 200 امریکی ڈالرز بھی ادا کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران افغانستان میں امن و امان کی ابتر صورتِ حال بالخصوص دہشت گردی اور پرتشدد کارروائیوں کے باعث پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل انتہائی سست تھا۔ لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد یہ توقع کی جا رہی ہے کہ افغان باشندوں کی وطن واپسی میں تیزی آئے گی۔
افغان مہاجرین کے کمشنریٹ میں فرائض انجام دینے والے ریٹائرڈ ایڈیشنل کمشنر وقار معروف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ امن معاہدے کے بعد انہیں توقع ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو گا اور وہاں لوگوں کو روزگار کے ذرائع بھی میسر ہوں گے۔ لہٰذا یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں مقیم زیادہ تر افغان شہری وطن واپس چلے جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ماہ اسلام آباد میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے متعلق ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی شرکت کی تھی۔ کانفرنس میں شرکا نے افغان باشندوں کی وطن واپسی کا عمل مؤثر بنانے پر زور دیا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں 27 لاکھ افغان باشندے مقیم ہیں جن میں 14 لاکھ اقوامِ متحدہ سے رجسٹرڈ ہیں۔ آٹھ لاکھ مہاجرین کی رجسٹریشن پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہوئی ہے جب کہ پانچ لاکھ سے زائد مہاجرین غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہتے ہیں۔