یوکرین میں روس کی جنگ سے پہلے یورپ کی توانائی کی پالیسی کی حکمت عملی کاربن گیسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنا تھا تاکہ آب و ہوا کی تبدیلی کے مضر اثرات کو محدود کیا جا سکے جس سے کرہ ارض اور اس پر موجود حیات کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
لیکن یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپی حکام اپنی توجہ روس سے درآمد کیے جانے والے تیل اور قدرتی گیس پر انحصار کو تیزی سے کم کرنے پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
روس سے ایندھن کی درآمد گھٹانے کے لیے یورپ کو کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس میں متبادل جگہوں سے ایندھن حاصل کرنے کے لیے نئی پائپ لائنیں بچھانا ، ان کے ٹرمینلز بنایا اور مقامی کوئلے کو استعمال میں لانا شامل ہے۔
لیکن یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں ہے، اس کی اضافی قیمت عام لوگوں کو بھی چکانی پڑے گی،جن میں موٹر گاڑیاں چلانے والے، گھر اور کاروبار شامل ہیں۔ مگراس تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کا ایک اور اثر کاربن گیسوں کے اخراج پر پڑسکتا ہے جس نے ماحولیات کو ماہرین کو متفکر کر دیا ہے۔
اگر روس سے یورپی ملکوں کو برآمد کی جانے والے تیل اور قدرتی گیس پر نظر ڈالی جائے تو 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین نے اپنی ضرورت کی 40 فی صد گیس اور 25 فی صد تیل روس سے منگوایا تھا۔ مگر اب یوکرین پر روسی جارحیت کی وجہ سے مغربی دنیا روس پر معاشی پابندیاں لگانے اور اسے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی پر چل رہی ہے جس کا سب سے بڑا ہدف قدرتی گیس اور تیل ہے۔
SEE ALSO: سمندر تیزی سےگرم ہونے لگے، تباہ کن طوفانوں کا خطرہ بڑھ گیاایک ایسے وقت میں جب کہ کچھ گروپس روس سے تیل اور گیس کی برآمد کے فوری بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں، یورپی یونین اس سال کے آخر تک روس سے گیس کی درآمدات دو تہائی تک گھٹانے اور 2030 سے پہلے اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یورپی یونین کے ایک اعلیٰ اقتصادی عہدے دار پاؤلو جینٹی لونی کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ آسان کام نہیں ہے لیکن یہ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں، ایک قلیل مدتی اور دوسرا طویل مدتی۔ روس سے ایندھن کی فراہمی روکنے سے فوری طور پر متبادل جگہوں سے ایندھن منگوانے کی ضرورت ہوگی جس کا اثر اس کی قیمتوں پر ہو گا جو صارفین پر منتقل ہو جائے گا۔ طویل مدتی اقدامات میں معدنی ایندھن کے متبادل شفاف اور قابل تجدید ذرائع کو ترقی دینا ہے جن میں شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔ اس طرح کے منصوبے نہ صرف ماحول دوست ہوتے ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں بلکہ یہ ملکی سیکیورٹی کے لیے بھی بہتر ہوتے ہیں کیونکہ یہ بیرونی ذرائع پر انحصار کو کم کرتے ہیں۔
یورپی یونین نے 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 1990 کی سطح کے مقابلے میں 55 فیصد تک گھٹانے اور 2050 تک صفر پر لانے کا عزم کیا ہے۔ تجزیہ کاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں بھی ان اہداف کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن روس سے ایندھن کی درآمدات کم کرنے کے پیش نظر قلیل مدت کے دوران کوئلے کے استعمال میں اضافہ ہوگا۔ برسلز میں قائم ایک تھنک ٹینک بروگل کے توانائی امور کے ایک ماہر جارج زچمین کہتے ہیں کہ جرمنی کے بجلی گھر وں کو 2030 کے بعد بھی کوئلے پر چلانا پڑے گا جس سے کاربن گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو جائے گا۔
چیک ری پبلک کے انرجی سیکیورٹی کمشنر واکلاف برٹوسکا کہتے ہیں کہ ہمیں کوئلے کی ضرورت اس وقت تک رہے گی جب تک متبادل ذرائع حاصل نہیں ہو جاتے۔
اس وقت یورپ کی اولین ترجیحات میں زیادہ سے زیادہ مائع قدرتی گیس خریدنا شامل ہے جسے بحری جہازوں کے ذریعے منگوایا جا سکتا ہے۔ امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ یورپ کے لیے مائع گیس کی برآمد میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ مائع گیس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کی منتقلی کے لیے ٹرمینلز قائم کرنے پڑتے ہیں جب کہ فی الحال جرمنی کے پاس درآمدی گیس کے ٹرمینلز کی کمی ہے۔اور وہ اس مسئلے کے حل کے لیے شمالی ساحلی علاقے میں کئی ارب یورو کی لاگت سے دو منصوبے تعمیر کر رہا ہے۔
یوکرین روس جنگ نے کئی ایسے منصوبوں کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے جن میں اس سے قبل دلچسپی گھٹ گئی تھی، مثال کے طور پر اسپین اور فرانس کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ جسے غیر منافع بخش سمجھ کر ترک کر دیا گیا تھا۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)
SEE ALSO: آسٹریلیا کا 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج صفر تک لانے کا اعلانبرطانیہ اب یورپی یونین کا حصہ نہیں رہا، وہ اپنے لیے الگ سے منصوبہ بندی کر رہاہے ۔ برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ روس سے ایندھن کی درآمد کو مرحلہ وار ختم کر دے گا اور گیس اور تیل کی تلاش کے نئے منصوبوں پر کام شروع کرے گا، جس پر ماحولیات کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے ان کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو کاربن گیسوں کا اخراج روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے حال ہی میں یورپ کے لیے ایک 10 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد ایک سال کے اندر روسی گیس پر ایک تہائی تک انحصار کم کرنا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت سردیوں میں گھروں کو گرم کرنے کے لیے درجہ حرارت کو موجودہ سطح سے اوسطاً ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک کم رکھنا ہے جس سے سالانہ 10 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس کی بچت ہو گی ، جو روس سے یورپ کو برآمد کی جانے والی گیس کے لگ بھگ 6 فی صد کے مساوی ہے۔
ماحولیات کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر جو کوششیں کی جا رہی ہیں، یوکرین جنگ کے نتیجے میں ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ان اہداف کا حصول دشوار ہوتا جا رہا ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس میں طے کیے گئے تھے۔