رسائی کے لنکس

فضائی آلودگی پیدائش سے قبل بچوں کی صحت کس طرح متاثر کر رہی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دنیا بھر میں مختلف ممالک کو اس وقت فضائی آلودگی، آب و ہوا کی تبدیلی، شدید گرمی کی لہر، پانی کی قلت سمیت دیگر ماحولیاتی خطروں کا بڑے پیمانے پر سامنا ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران فضائی آلودگی کا مسئلہ سنگینی اختیار کرتا جا رہا ہے اور مختلف ممالک اس پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

فضائی آلودگی کی وجہ سے جہاں دل اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں اب یہ جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سمیت پاکستان کے شہر لاہور کی فضا کو صحت کے لیے خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔

آلودگی کی وجہ سے صرف بالغ افراد کی صحت ہی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پیدائش سے قبل ہی بچے کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان کے شہر کراچی کے آغا خان اسپتال کے انوائرمینٹل آکیوپیشنل ہیلتھ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید ظفر فاطمی کا کہنا ہے کہ "فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کا وزن پیدائش کے وقت ایک سو گرام کم ہوتا جا رہا ہے۔"

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر فاطمی کا کہنا تھا فضائی آلودگی کی وجہ سے ماؤں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے جس سے دنیا میں آنے والا بچہ بھی صحت کے مسائل اور کم وزن کے ساتھ جنم لیتا ہے۔

ان کے بقول یہ مسئلہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال میں شدت اختیار کر رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 42 لاکھ انسان فضائی آلودگی کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اموات کی وجہ ان افراد کا براہ راست اسموگ، دھوئیں اور آلودگی میں زندگی گزارنا ہے جس سے نمونیہ، امراضِ قلب، پھیپھڑوں کے امراض اور دمہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر فاطمی کے مطابق جب شہر میں فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے تو اسپتالوں میں بھی امراضِ قلب، دمہ اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کے داخلے بڑھنا شروع ہو جاتے اور اس میں 30 فی صد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے بڑے شہروں خاص کر کراچی جیسے میٹروپولیٹین شہر میں جگہ جگہ ایئر کوالٹی کے سائن بورڈز ہونا بہت ضروری ہے جو 24 گھنٹے فضائی آلودگی کی صورتِ حال سے متعلق ڈیٹا مہیا کرے۔

لاہور میں اسموگ کا پتا لگانے والے جدید سینسرز نصب
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:50 0:00

فضائی آلودگی کیسے ہوتی ہے؟

ماہرین کے مطابق ہوا میں مختلف گیسز شامل ہوتی ہیں اور اگر کسی بھی گیس کی مقدار میں ضرورت سے زیادہ اضافہ ہونے لگے تو اس سے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

فضا میں موجود پارٹیکیولیٹ میٹرز وہ چھوٹے ذرات ہیں جو عام آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ ذرات گاڑیوں، صنعتوں، کچرا جلنے اور ان ڈور سگریٹ نوشی کی وجہ سے نکلتے ہیں۔ یہ سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور پھر خون میں شامل ہو کر دل، جگر اور پھیپھڑوں کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔

فضائی آلودگی پر کام کرنے والے عابد عمر نے آلودگی کو جانچنے کے لیے لاہور، کراچی اور پشاور میں ایئر کوالٹی مانیٹرز لگائے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان شہروں میں فضائی آلودگی کی کیا صورتِ حال ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے ایسے افراد سے ملاقات کی جو ماحولیات کے لیے کام کر رہے تھے اور انہوں نے ان کی ہی مدد سے گھروں اور دفاتر میں یہ مانیٹرز نصب کیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک عام آدمی ہر چیز کے لیے حکومت کا ہی انتظار کیوں کرے؟ یہ قدم کوئی بھی اٹھا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فضائی آلودگی پر کام شروع کیا۔

عابد عمر کا کہنا ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں اور ماحولیاتی اداروں سے بھی بات کی ہے اور انہیں آگاہ کیا ہے کہ یہ اہم مسئلہ ہے جس کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔

ماہرین کے مطابق کراچی اس لحاظ سے کہیں بہتر ہے کیوں کہ یہاں سمندری ہوائیں چلتی ہیں جو آلودگی کو ٹھیرنے نہیں دیتیں۔

ایئر کوالٹی انڈیکس کیا ہے؟َ

فضائی آلودگی پر کام کرنے والے عابد کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس میں یہ تمام چیزیں شامل ہیں کہ ہوا میں کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن، اوزون، پارٹیکیولیٹ میٹرز کو کیسے جانچا جا رہا ہے اور ان کی رینج کیا ہے۔

ان کے مطابق مذکورہ تمام پہلوؤں کو ایک انڈیکس میں تبدیل کیا جاتا ہے جسے 'ایئر کوالٹی انڈیکس' کہا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ انڈیکس صحت کے لیے بنایا گیا ہے۔ امریکی اسٹینڈرز کے مطابق اس کی حد 400 تک ہے۔ اگر انڈیکس صفر سے 50 تک ہے تو اس کا مطلب فضا محفوظ ہے۔ جب کہ اگر یہ نمبر 100 سے تجاوز کرے تو یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

اگر ایئر کوالٹی انڈیکس 300 تک پہنچ جائے تو یہ انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے اور اس میں بچوں اور بزرگ افراد کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے جب کہ باہر جاتے وقت ماسک کا استعمال کرنے کا کہا جاتا ہے۔

عابد عمر اور ان سمیت دیگر ہم خیال شہریوں کی جانب سے فضائی آلودگی پر آواز اٹھانے کے سبب 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب کی صوبائی حکومت نے پانچ ایئر کوالٹی مانیٹرز لگائے تھے۔

البتہ سندھ میں صوبائی حکومت کی جانب سے اب بھی ایئر کوالٹی جانچنے کا کوئی مانیٹر نہیں لگایا گیا۔

عابد کے مطابق فضائی آلودگی جانچنے کے لیے لگائے جانے والے آلات کی ریڈنگ میں بھی فرق ہوتا ہے۔ 'ریفرینس اسٹینڈرڈ مانیٹرز' جنہیں بڑے مانیٹرز بھی کہا جاتا ہے، ان کی درستگی 99.9 فی صد ہے جب کہ دوسرے کم لاگت والے مانیٹرز کی ریڈنگ میں کچھ پوائنٹس کا فرق ہوتا ہے۔

ان کے بقول سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی(سیپا) کے پاس دو بڑے ایئر کوالٹی مانیٹرز ہیں جو کورنگی انڈسٹریل ایریا اور ضلع وسطی میں نصب ہیں۔ یہ مانیٹرز جاپان کے تعاون سے دیے گئے تھے لیکن یہ کافی عرصے سے غیر فعال ہیں۔

کراچی میں اس وقت امریکی قونصل خانے میں ایئر کوالٹی یونٹ نصب ہے جس کا ڈیٹا پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹیو (پاکی) پر جاری کیا جاتا ہے جب کہ شہر بھر میں نصب 12 ایئر کوالٹی یونٹس سے جاری ہونے والا ڈیٹا 'لنکڈ تھنکس' پر نظر آتا ہے۔

'لنکڈ تھنگس' کی بانی صوفیہ حسنین کے بنائے ہوئے مانیٹرز کراچی اور پشاور میں نصب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایئر کوالٹی ڈیوائسز بنانا نہ تو مہنگا ہے اور نہ ہی مشکل ہے۔

ان کے بقول یہ ایک تیکنیکی کام ہے اور ضروری ہے کہ یہ جہاں بھی نصب ہو وہاں سے ڈیٹا لیا جاتا رہے اور ایک عام آدمی کی بھی اس ڈیٹا پر رسائی ہو۔

صوفیہ حسنین کے مطابق یہ ڈیوائسز ان کی جانب سے خود تیار کی جاتی ہیں اور ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ اس میں مختلف سینسرز لگائے جائیں۔ یہ پارٹیکیولیٹ میٹرز 2.5 کو جانچتی ہیں جو عام فون کے چارجر سے چلائے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بڑی ڈیوائسز میں تمام گیسوں کو علیحدہ جانچنے کا نظام موجود ہوتا ہے تا کہ جو اس مسئلے پر تحقیق کر رہے ہیں انہیں ڈیٹا مل سکے۔

صوفیہ کے مطابق ان کے بنائے ہوئے یونٹس مصروف شاہراہوں پر ہیں جن میں حیدری، طارق روڈ، شاہراہ فیصل، ٹمبر مارکیٹ، کورنگی انڈسٹریل ایریا، کلفٹن، نیپا، یونیورسٹی روڈ شامل ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ یہاں 24 گھنٹوں کے دوران فضائی آلودگی کی صورتِ حال کیسی ہے۔

XS
SM
MD
LG