عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد واشنگٹن نے مزید فوجی مشرق وسطیٰ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں منگل کو مشتعل ہجوم نے امریکی فورسز کی حالیہ فضائی کارروائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ مشتعل افراد کے حملے میں سفارتی عملہ محفوظ رہا اور اسے واپس بلائے جانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ 82ویں ایئربورن ڈویژن سے 750 فوجی مشرق وسطیٰ بھیجے جا رہے ہیں اور آئندہ چند روز کے دوران مزید فوجیوں کو وہاں تعینات کیا جائے گا۔
وزیرِ دفاع مارک ایسپر کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ بغداد میں سفارت خانے پر حملے کے بعد امریکی افواج اور انہیں دستیاب سہولیات کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرناک کے پیش نظر مناسب اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔
امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر کویت میں موجود 750 فوجیوں کو عراق روانہ کیا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر آئندہ چند روز میں چار ہزار اہلکار خطے میں بھیجے جا سکتے ہیں۔
SEE ALSO: عراق اور شام میں ایران نواز ملیشیا کے خلاف کارروائی کامیاب رہی: امریکہیاد رہے کہ مقامی فورسز کو تربیت دینے کے لیے چار ہزار سے زائد امریکی فوجی پہلے ہی عراق میں موجود ہیں۔
جمعے کو عراقی ملٹری بیس پر راکٹ حملے میں امریکی سویلین کنٹریکٹر کی ہلاکت کے جواب میں امریکی فورسز نے ایران کی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کے خلاف کارروائی کی تھی۔
اس کارروائی میں کم از کم 25 جنگجو ہلاک اور 51 زخمی ہو گئے تھے۔ امریکی فورسز کی کارروائی کے خلاف عراق کے دارالحکومت بغداد میں مظاہرے کیے گئے۔ مشتعل ہجوم نے منگل کو امریکی سفارت خانے کے داخلی راستے پر قائم سیکیورٹی پوسٹ کو آگ لگائی۔ تاہم، وہ مرکزی عمارت تک نہ پہنچ سکے۔
گزشتہ سات برس کے دوران امریکی کے کسی بھی سفارت خانے پر ہونے والا یہ دوسرا حملہ تھا۔ اس سے قبل 2012 میں لیبیا کے شہر بن غازی میں مسلح افراد کے حملے میں امریکی سفارت کار سمیت عملے کے چار اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق بغداد میں سفارت خانے پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے عراقی وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی کو فون کیا اور سفارت خانے اور عملے کی حفاظت پر زور دیا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں سفارت خانے پر ہونے والے حملے کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی جانی نقصان ہوا تو اس کی ایران کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہ تنبیہ نہیں بلکہ دھمکی ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2003 میں عراق پر چڑھائی کرتے ہوئے صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔