اگر متوقع فوجی کارروائی کے نتیجے میں داعش کا شہروں سے صفایا ہو جاتا ہے، جو اب تک شام اور عراق میں اُن کے گڑھ ہیں، فوجی تجزیہ کاروں اور کُرد کمانڈروں کا کہنا ہے کہ علاقائی دہشت گردی کا دائرہ بڑھانے کے لیے شدت پسند دیہاتی علاقوں میں اڈے قائم کرلیں گے۔
رضوان بدینی نے کہا ہے کہ ’’جب اُن کی راہیں بند ہوجاتی ہیں، تو وہ (داعش کے جنگجو) اپنے زیرِ قبضہ علاقوں سے ہٹ کر شد و مد کے ساتھ تیزی دکھاتے ہیں۔‘‘ بدینی اربیل کی ’صلاح الدین یونیورسٹی‘ میں سیاست کے پروفیسر ہیں، جو شمالی عراق میں واقع ہے۔
بقول اُن کے ’’شام اور عراق کے دیہی صوبوں کے مضافات میں، داعش کا اثر و رسوخ جاری رہے گا اور وہ کوشش کرے گی کہ اِن علاقوں کو کارروائی کے مراکز کے طور پر استعمال کریں، اور اپنے فوری دشمنوں پر حملے کریں‘‘۔
سنہ 2014 سے اپنی خودساختہ خلافت کے قیام اور اُسے پھیلانے کے عزائم کے تحت، داعش عراق اور شام کو استعمال کرتا آیا ہے، جس کے نتیجے میں اِن دونوں لڑائی کے شکار ملکوں کا نقشہ یکسر بدل چکا ہے۔
داعش کافی علاقے سے محروم
تاہم، داعش کے خلاف مخالفین میں امریکی قیادت والا اتحاد، سرکاری افواج، مقامی فوجیں، ملیشیا اور غیر ملکی فوجیں شامل ہیں، جس کے باعث یہ انتہا پسند گروپ کمزور پڑتا جا رہا ہے اور رفتہ رفتہ عراق اور شام کے علاقے مقامی کنٹرول میں واپس جا چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کانگریس کی سماعت کے دوران، امریکی معاون وزیر خارجہ، اینتھونی جے بِلنکن نے بتایا کہ ’’ہم نے شام میں (داعش) کو اُس کے تقریباً 25 فی صد علاقے سے محروم کر دیا ہے، جب کہ عراق میں 50 فی صد سے زیادہ علاقہ واگزار کرالیا گیا ہے‘‘۔
مغربی عراق میں، حالیہ مہینوں کے دوران صوبہٴ انبار میں داعش کو شکست در شکست نصیب ہوئی ہے۔
شمال میں، دولت اسلامیہ موصل میں اپنے ٹھکانوں کو مضبوط کر رہی ہے، جب کہ وہ شہر پر دوبارہ کنٹرول کے حصول کے لیے عراقی افواج کی جانب سے بڑا حملہ ہو سکتا ہے، جس کی 25 لاکھ سے زیادہ کی آبادی تھی جب دو برس سے زیادہ عرصہ قبل داعش نے اُس پر قبضہ جمایا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موصل کے ہاتھوں سے جانے سے انتہا پسند لڑاکے خطے میں بکھر چکے ہیں، جو زیادہ تر ریگستانی خطہ ہے۔
موصل چھینے جانے سے ’خلافت‘ کو خطرہ لاحق ہوگا
خالد اکاشے نے کہا ہے کہ ’’موصل کی آزادی سے عراق میں داعش کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے، جس کے بعد، خود ساختہ خلافت کا دھڑپ تختہ ہوجائے گا‘‘۔ اکاشے قاہرہ میں قائم سکیورٹی کے مطالعے کا قومی مرکز کے سربراہ ہیں۔
دیگر افراد کا کہنا ہے کہ موصل واگزار کیے جانے کے بعد بھی داعش عراق میں ایک شیطانی قوت کے طور پر باقی رہے گی۔
داعش کو صوبہٴ انبار کے چند سنی قبائل کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ بات عراز دیازی نے بتائی ہے جو اربیل میں دفاعی حکمت عملی کے ماہر ہیں۔
بقول اُن کے، ’جب تک اسے اِن علاقوں میں معروف حمایت حاصل ہے، گروپ موزون معلوم دے گا‘‘۔
عراق کی شیعہ اکثریت والی حکومت میں سنی قبائل الگ تھلگ لگتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ داعش کو متبادل قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چند سنی قبائل داعش کے ساتھ کاروبار کو منافعہ بخش خیال کرتے ہیں، جس میں داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں سے تیل اور اشیا کی اسمگلنگ شامل ہے۔