ایران کی اخلاقی پولیس کی تحویل میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی ہلاکت پر ایران میں ایک ہفتے سے جاری حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کے جواب میں اب ایران میں حکومت کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
جمعے کو دارالحکومت ایران میں ہزاروں افراد نےریلی نکالی اور حکومت کے حق میں نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے ایران کے پرچم اُٹھا رکھے تھے۔ اسی نوعیت کے مظاہرے ایران کے دوسرے شہروں میں بھی ہوئے۔
ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ مظاہرے باقاعدہ طور پر منظم نہیں کیے گئے، بلکہ شہریوں نے اپنے طور پر ان کا اہتمام کیا۔
سرکاری میڈیا کے مطابق حکومت نواز مظاہرین نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔ ماہرین کے مطابق ان مظاہروں کے ذریعے اس حکومتی مؤقف کی تائید حاصل کی جا رہی ہے کہ مہسا امینی کے معاملے سے ایران کے دُشمن ملکوں نے بھی فائدہ اُٹھایا۔
ایران کے سرکاری ٹی وی نے یہ بھی تصدیق کی ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایک ہفتے سے جاری پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 35 تک جا پہنچی ہے۔ مشتعل مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان مختلف شہروں میں تصادم کا سلسلہ پورا ہفتہ جاری رہا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین حالیہ مظاہروں کو موازنہ 2019 میں ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہروں سے کر رہے ہیں، جب تیل کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مظاہروں کے پیشِ نظر لوگوں کے درمیان رابطے روکنے کے لیے ایران میں بعض مقامات پر انٹرنیٹ سروسز معطل کرنے کے علاوہ انسٹاگرام اور وٹس ایپ سروسز کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ اس کے ردِعمل میں امریکی محکمۂ خزانہ نے ایران پر پابندیاں کے باوجود امریکی ٹیکنالوجی کمپنی سے کہا ہے کہ وہ ایرانی شہریوں کو انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے کے لیے اپنے کاروبار کو وسعت دیں۔
جمعے کی شب ایران کے سرکاری ٹی وی نے یہ خبر نشر کی کہ اتوار کو مہسا امینی کی تدفین کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت 35 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔Your browser doesn’t support HTML5
ایران کے دارالحکومت تہران میں اخلاقی پولیس (گشتِ ارشاد) نے گزشتہ ہفتے 22 سالہ مہسا امینی کو حجاب صحیح طور پرحجاب نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں بیہوشی کی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں جمعے کو ان کی موت واقع ہوگئی۔ مہسا امینی کی موت کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے۔
مظاہرین کا الزام ہے کہ دورانِ حراست مہسا پر سخت تشدد کیا گیا اور سر پر بھاری ضرب لگنے سے ان کی موت واقع ہوئی۔ البتہ ایرانی حکام اس الزام کی تردید کر چکے ہیں۔ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور فرانس سمیت کئی ملکوں نے مہسا امینی کی ہلاکت اور مظاہروں کے خلاف ایرانی حکومت کے ردِّعمل کی مذمت کی ہے۔
مظاہروں میں خواتین بھی پیش پیش ہیں اور بعض خواتین اپنے حجاب اور دوپٹے جلا کر غم و غصے کا اظہار کر رہی ہیں۔ کچھ خواتین نے احتجاجاً اپنے بال کاٹنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔