ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی “ارنا” نے بتایا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے الزام میں ایران میں دو خواتین کو سزائے موت کا حکم سنایاگیا ہے۔ اس سزا کی بڑے پیمانے پر آن لائن مذمت کی جارہی ہے۔
حکام نے زہرا سیدیغی اور الہام چو ب دار پر’ کرپشن آن ارتھ‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ اصطلاح اکثر ایرانی حکومت کے خلاف کام کرنے کی کوشش کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے نوجوان خواتین کو ورغلایا۔ لیکن بیرون ملک قائم حقوق انسانی کے گروپوں نے ان دونوں خواتین کو مقامی’ گے اینڈ لز بین‘ یعنی ہم جنس پرستوں کے حقوق کی سرگرم کارکن بتایا ہے۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی نے ان خواتین کی سرگرمیوں کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ بس یہ کہا کہ انہوں نے نوجوان خواتین سے بیرون ملک بہتر تربیت اور روز گار کے بہتر مواقع کا وعدہ کرکے انہیں ورغلایا۔ ملک کے شمال مغربی شہر ارمیا کی انقلابی عدالت نے ان خواتین کو موت کی سزا سنائی۔ انہیں اپیل کا حق حاصل ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اس سال کے اوائل میں سیدیغی کی شناخت حقوق انسانی کا دفاع کرنے والی کی حیثیت سے کی تھی۔ تنظیم نے کہا تھا کہ کئی مہینوں سے ان کی حراست کا سبب ان کے جنسی رجحانات ، صنفی شناخت، اور ایل جی بی ٹی کے حقوق کے دفاع میں ان کی میڈیا پوسٹس اور بیانات تھے۔
ناروے میں رجسٹرڈ حقوق انسانی کی تنظیم ہینگا ( Hengaw )نے، جو ایران کے مغربی کردستان صوبے میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتی ہے، بتایا ہے کہ اسی طرح سیکیورٹی فورسز نے چو ب دار کو ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے الزام میں حراست میں لیا۔
ایرانی قانون کے تحت قتل، آبرو ریزی، منشیات کا کاروبار اور لواطت ایسے جرائم ہیں جن پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، چین کی طرح دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ملکوں میں شامل ہے۔
ہم جنس پرستی ایران میں غیر قانونی ہے۔ اور ایران گے، لز بین، Bisexual اور ٹرانس جینڈر” لوگوں کے لئے دنیا کی بدترین جگہوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔اور وہاں جبر و ستم کا خوف اتنا زیادہ ہے کہ بعض “گے اور لز بین “ لوگوں نے دوسرے ملکوں میں پناہ لینے کی کوشش کی اور یہ پناہ حاصل بھی کی۔ اس سال کے اوائل میں اطلاعات کے مطابق ایران میں دو ہم جنس پرست مردوں کو لواطت کے الزام میں سزائےموت دی گئی تھی۔