|
امریکہ نے پیر کو بنگلہ دیش میں مظاہرین کے خلاف مزید کریک ڈاؤن کے بجائے عبوری حکومت کی تشکیل پر فوج کو سلام پیش کیاہے۔ تاہم کہا ہے کہ امریکہ کو "اختتام ہفتہ اور گزشتہ ہفتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ہلاکتوں اور زخمی ہونے کی رپورٹوں پر شدید صدمہ ہوا ہے۔
محکمہ خارجہ کی معمول کی بریفنگ میں ترجمان میتھیو ملرنے کہا، "یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس ان اموات کے لیے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے مکمل اور شفاف تحقیقات ہوں۔"
ملر نے کہا کہ امریکہ نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں کہ فوج نے طلباء کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں پر مزیدکریک ڈاؤن کرنے کے لیے دباؤ کو مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا،"اگر یہ در حقیقت درست ہے کہ فوج نے قانونی طور پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے مطالبات کی مزاحمت کی تھی، تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔"
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہم تمام فریقوں سے مزید تشدد سے باز رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا۔"گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران بہت زیادہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اور ہم آنے والے دنوں میں پرسکون رہنےاور تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہیں۔"
شیخ حسینہ نے جولائی کے اوائل سے اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اتوار کو تقریباً 100 افراد کی ہلاکت کے بعد وہ ملک سے فرار ہو گئیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں کو بتایاکہ ہم عبوری حکومت کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور بنگلہ دیش کے قوانین کے مطابق کسی بھی قسم کی منتقلی پر زور دیتے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ آیا فوج کو اگلی قیادت کا انتخاب کرنا چاہیے، ملر نے کہا، "ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل کی بنگلہ دیشی حکومت کا فیصلہ بنگلہ دیش کے عوام کریں ۔"
شیخ حسینہ کے امریکہ کے ساتھ بڑی حد تک ایسے تعمیری تعلقات تھے، جن کے نتیجے میں وہ اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے اور میانمار میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کو پناہ دینے جیسی ترجیحات میں شراکت دار کے طور پر نظر آئیں۔
لیکن امریکہ کی جانب سے بتدریج ان کےآمرانہ رجحانات کے لئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایاگیا اور جمہوریت سے متعلق خدشات کے پیش نظر ان پر ویزا پابندیاں عائد کیں۔
یہ رپورٹ اے ایف پی کی اطلاعات پر مبنی ہے۔