مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بھوک، خوراک کی قلت کا سامنا

عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے علاقے کے تقریباً 70 لاکھ مزید افراد بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔ 67 لاکھ افراد کے اضافے کے بعد اب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں چار کروڑ ستر لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔

برسہا برس سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ لڑائیوں، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی مسائل کا شکار ہے اور اب یہ علاقہ کرونا وائرس کی لپیٹ میں بھی آ گیا ہے، جس نے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے مسلسل انتباہ کرتے آ رہے ہیں کہ ان علاقوں کی کمزور حکومتیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ کرونا وائرس کا مقابلہ کر سکیں یا اس کے اثرات برداشت کر سکیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نے عالمی بحران کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں جو علاقے بھوک اور خوراک کی قلت کا شکار ہیں ان میں سے 20 فی صد آبادی کا تعلق مشروق وسطیٰ سے ہے۔

ادارے کی ترجمان، الزبتھ بائیر نے بتایا ہے کہ اس رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ عالمگیر وبا ان علاقوں میں بھوک اور خوراک کی قلت کے مسئلے کو دو چند کر دے گی۔ تھوڑا بہت کھانا جو یہاں میسر تھا وہ بھی ناپید ہو رہا ہے جب کہ روزی کمانے کے وسائل گھٹتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کے پاس نہ کوئی بچت ہے، نہ انہیں بے روزگاری الاونس ملتا ہے اور نہ انہیں مفت خوراک مل سکتی ہے۔ محنت مزدوری کر کے یہ لوگ جو تھوڑا بہت کما لیتے تھے اس کے دروازے بھی کرونا وبا نے بند کر دیے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام اس وقت علاقے کے 23 لاکھ افراد کو خوراک کی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس کا دو تہائی حصہ یمن اور شام کے عوام کو ملتا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ علاقے کے گیارہ ملکوں کے 38 لاکھ بچوں کو سکولوں میں کھانا فراہم نہیں کیا جاتا، اس طرح ان بچوں کو صرف ایک وقت کا کھانا نصیب ہے۔

خوراک کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ وہ متبادل طریقوں کی تلاش میں ہے، تاکہ گیارہ میں سے نو ملکوں کے بچوں کو کھانا فراہم کیا جا سکے۔

ادارہ اس پر بھی غور کر رہا ہے کہ گھروں پر کھانا تقسیم کر دیا جائے۔ اس وقت ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت خاندانوں کو نقد رقم یا واوچر فراہم کیے جا رہے ہیں، تاکہ وہ بازار سے خوراک خرید سکیں۔