وائٹ ہاؤس جمعے کے روز اُس وقت نکتی چینی کا مرکز بنا جب خبروں کے متعدد اداروں پر پریس سکریٹری، شان اسپائسر کے ساتھ سوال و جواب کی روزانہ نشست میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
اخباری اداروں کے متعدد گروپ جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے رہے ہیں، جن میں ’سی این این‘، ’دی نیویارک ٹائمز‘ شامل ہیں، اُنھیں بریفنگ سے علیحدہ رکھا گیا تھا۔
دوسری جانب، دیگر اخباری ادارے جنھیں ٹرمپ کا ہمدرد بتایا جاتا ہے، جس میں ’بریٹمارٹ نیوز‘، ’دی ون امریکہ نیوز نیٹ ورک‘ اور ’دی واشنگٹن ٹائمز‘ کو شرکت کی اجازت دی گئی۔
قومی دھارے میں شامل جن دیگر اداروں کو شرکت کی اجازت دی گئی اُن میں ’اے بی سی‘، ’سی بی ایس‘، ’این بی سی‘ اور ’فوکس براڈکاسٹ نیٹ ورکس‘ شامل ہیں۔ کچھ خبر رساں اداروں نے، جن میں ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ شامل ہے، اجازت نہ ملنے والے اداروں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر بریفنگ سے الگ رہے۔
جمعے کو وائٹ ہاؤس میں موجود ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کو بریفنگ کے لیے مدعو نہیں کیا گیا، اُنھوں نے اسپائسر کے ساتھ ملاقات میں شرکت نہیں کی۔
اسپائسر کے دفتر میں ’آف کیمرا‘ بریفنگ منعقد ہوئی، جس نے ’آن کیمرا‘ پریس بریفنگ کی جگہ لی، جس میں تمام سند یافتہ اخباری اداروں کو شرکت کی اجازت ہوتی ہے۔
صدر کی رپورٹنگ کرنے والی صحافیوں کی تنظیم، ’وائٹ ہاؤس کرسپانڈینٹس ایسو سی ایشن‘ نے جمعے کے روز کے اقدام پر وائٹ ہاؤس کی مذمت کی ہے۔
اسپائسر کی معاون پریس سکریٹری، سارا ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ جمعے کو ہونے والی بریفنگ وائٹ ہاؤس کی معیاری روایت کے عین مطابق منعقد کی گئی۔