صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ تارکین وطن سے متعلق اُن کا انتظامی حکم نامہ ''کسی مذہب کے بارے میں نہیں ہے''۔ اُنھوں نے کہا کہ ''اِس کا تعلق دہشت گردی کے معاملے اور ہمارے ملک کو محفوظ بنانے سے ہے''۔
اتوار کے روز وائٹ ہائوس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں، صدر نے کہا ہے کہ ''دنیا میں 40 سے زائد ایسے ملک ہیں جن کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے''۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ سارے اِس حکم نامے سے متاثر نہیں ہوئے۔
صدر نے کہا ہے کہ ''یہ بات واضح ہے کہ یہ مسلمانوں پر لگائی گئی بندش کا معاملہ نہیں ہے، جیسا کہ ذرائع ابلاغ نے غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے''۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ''آئندہ 90 دِن کے اندر ویزا کے معاملے کا جائزہ لینے اور محفوظ ترین پالیسیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے بعد، پھر سے اِن تمام ملکوں پر ویزا کی پابندی ہٹا لی جائے گی''۔
صدر نے کہا کہ ''مجھے شام کے انسانی ہمدردی کےخوفناک بحران پر عوام سے انتہائی ہمدردی ہے۔ ہمیشہ، میری اولین ترجیح یہی ہوگی کہ اپنے ملک کو محفوظ بنائوں اور اس کی خدمت کروں۔ لیکن، ایک صدر کی حیثیت سے میں چاہتا ہوں کہ تمام طریقے تلاش کیے جائیں جن کی مدد سے مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کی جا سکے''۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ''امریکہ تارکینِ وطن پر مشتمل ایک قابل فخر ملک ہے۔ ہمیں اُن تمام افراد کے ساتھ دلی ہمدردی ہے جو مظالم سے بچنے کے لیے بھاگ نکلے ہیں۔ لیکن، ہم تبھی اُن کی مدد کرسکیں گے جب ہم اپنے شہریوں اور سرحد کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''امریکہ ہمیشہ سے آزاد لوگوں کی سرزمین اور بہادر افراد کا ملک رہا ہے۔ ہم اِسے آزاد رکھیں گے، اور محفوظ بنائیں گے؛ جیسا کہ میڈیا کو پتا ہے، لیکن وہ ایسا کہنے سے گریزاں ہے''۔
صدر نے کہا کہ اُن کی پالیسی وہی ہے جو 2011ء میں اُس وقت صدر اوباما نے اپنا رکھی تھی، ''جب اُنھوں نے چھ ماہ کے لیے عراق سے آنے والے مہاجرین پر ویزا کی پابندی نافذ کی تھی''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''انتظامی حکم نامے میں شامل سات ملک وہی ہیں جنھیں اوباما انتظامیہ کے دوران دہشت گردی کی آماجگاہ کے طور پر شناخت کیا گیا تھا''۔