نیوزی لینڈ کے ساحلوں پر 477 وہیلز ہلاک

نیوزی لینڈ کے ساحلوں پر پھنس کر ہلاک ہونے والی وہیلز

نیوزی لینڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کے دو دور دراز ساحلوں پر پھنسی تقریباً 477 پائلٹ وہیلز ہلاک ہو چکی ہیں۔

خبر رساں ادارے 'ایسو سی ایٹڈ پریس' کے مطابق وہیلز کو بچانے میں مدد کرنے والے ایک غیرمنافع بخش گروپ پراجیکٹ جوناہ کے جنرل مینیجر ڈیرن گروور کے مطابق پھنسی ہوئی وہیلز میں سے کسی کو بھی دوبارہ تیرایا نہیں جا سکا اور وہ سب یا تو قدرتی طور پر مر گئیں یا انہیں تکلیف اور اذیت سے بچانے کے لیے ہلاک کر دیا گیا۔

ان کے بقول وہیلز چیتھم جزائر کے ساحل پر پھنس گئی تھیں۔ یہ جزائر نیوزی لینڈ کے مرکزی جزائر سے تقریباً 500 میل مشرق میں واقع ہیں اور وہاں کی آبادی محض 600 کے لگ بھگ ہے۔

محکمۂ تحفظ کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز توپانگی کے ساحل پر 232 وہیل پھنس گئیں تھیں جب کہ پیر کو مزید 245 وہیلز خلیج ویرے کے ساحل پر پھنس گئیں۔

خیال رہے کہ دو ہفتے قبل آسٹریلیا کے ایک دور افتادہ ساحلی علاقے تسمانیہ میں لگ بھگ 22 پائلٹ نسل کی وہیلزہلاک ہو ئی تھیں۔

محکمۂ تحفظ نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ یہ واقعات تکلیف دہ اور حالات چیلنجنگ ہیں، اگرچہ ان ہلاکتوں کا تعلق قدرتی عوامل سے ہے لیکن پھر بھی یہ مدد کرنے والوں کے لیے ایک دکھ بھری اور مشکل صورتِ حال ہے ۔

گروور نے کہا کہ دو دراز مقامات اور ارد گرد کے پانیوں میں بھٹکی ہوئی وہیلز کو واپس بھیجنے میں ناکامی اس لیے بھی ہوئی کیوں کہ وہاں بڑی تعداد میں شارک مچھلیاں موجود تھیں۔ چونکہ شارک انسانوں پر حملہ کرتی ہیں اس لیے وہ اپنے رضاکاروں کو وہاں نہیں بھیج سکتے تھے۔

فائل فوٹو

'ایسو سی ایٹڈ پریس' کے مطابق کنزرویٹیو ڈپارٹمنٹ کے ایک ٹیکنیکل میرین ایڈوائزر ڈیو لوند کوئسٹ نےبتایا کہ ہم چیتھم جزائر میں وہیلز کو فعال طریقے سے پانیوں میں واپس جانے میں مدد فراہم نہیں کرتے کیوں کہ وہاں ان پر شارک اور خود وہیلز کے حملوں کا بھی خطرہ ہوتاہے۔ اس لیے موجودہ صورتِ حال میں ساحلوں پر پھنس جانے والی وہیلز کو بغیر تکلیف کے ہلاک کرنا ہی سب سے رحم دلانہ اقدام تھا۔

نیو زی لینڈ میں خاص طور پر موسمِ گرما کے دوران پاِئلٹ وہیلز کےبڑے پیمانے پر ساحلوں پر پھنس جانے کے واقعات عام ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں درستگی سےنہیں جانتے کہ ان وہیلز کی ساحل پر پھنسنے کی وجوہات کیا تھیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ ساحلی علاقے میں ڈھلوانی شکل کے ریت کے ٹیلوں کو دیکھ کر وہیلز ممکنہ طورپر کسی ابہام کا شکار ہو گئی ہوں۔

گروور نے کہا کہ جزائر چیتھم میں وہیلز کے لیے بہت خوراک موجود ہے او ر جب وہ تیرتی ہوئی خشکی کے قریب تر آتی ہیں تو وہ اس تیزی سے واپس نہیں جا چاتی جس تیزی سے سمندر کا پانی اتر جاتا ہے اور وہیلز ریت میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔

گروور نے کہا کہ وہیلز آواز کی لہروں یا اپنی باز گشت کی مدد سے اپنے ارد گرد کے مقام کا پتہ چلاتی ہیں لیکن اس سےانہیں یہ پتانہیں چلتا کہ وہ جس مقام پر جارہی ہیں وہاں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔وہ ساحل کے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر وہ گھبرا کر سمت کا ادراک کھو بیٹھتی ہیں۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ گہرے پانیوں کی جانب واپسی کی کوئی کوشش کریں وہ ساحل پر پھنس جاتی ہیں ۔

فائل فوٹو

گروور نے مزید بتایاکہ جزائر چیتھم کے ساحلوں کے دور دراز مقام کی وجہ سے مردہ وہیلز کو نہ تو دفن کیا جائے گا اور نہ ہی سمندر سے نکالا جائے گا ، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، بلکہ انہیں گلنے سسٹرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فطرت میں ری سائیکلنگ کا عمل جاری رہتا ہے اور وہ اس عمل میں فطرت کا حصہ بن جائیں گی۔

اس رپورٹ کا مواد' ایسو سی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔