اس ہفتے پانچ مغربی حکومتوں نے اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے تحت مغربی کنارے کے ان علاقوں میں جو اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں، نو بستیوں کو پچھلی تاریخوں سے جائز قرار دے دیا گیا ہے اور نئے گھروں کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی ہے۔
برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کی جانب سے اس کی مخالفت کے اظہار نے ان بستیوں سے متعلق اسرئیل کی پالیسی کی جانب توجہ مرکوز کر دی ہے جس کے بارے میں متعدد سوال بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ اے ایف پی نے انہی سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
ان بستیوں سے کیا مراد ہے؟
یہ بستیاں اسرائیل کے وہ گاؤں، قصبے اور حتیٰ کہ شہر ہیں جو اس علاقے میں بسائے گئے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔
اس وقت لگ بھگ 4لاکھ 75 ہزار اسرائیلی آبادکار مغربی کنارے کے اس علاقے میں رہتے ہیں جس پر اسرائیل نے قبضہ کیا تھا جب کہ یہاں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد 29 لاکھ ہے۔
اسی طرح اس سے ملحقہ یروشلم میں 2 لاکھ 30 ہزار اسرائیلی کم از کم 3لاکھ 60 ہزار فلسطینیوں کے ساتھ رہتے ہیں جو اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔
اسی طرح اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کے کچھ حصے پر بھی قبضہ کیا تھا اور وہاں بستیاں بسا لی تھیں۔ تاہم 2005 میں اس نے غزہ کی بستیاں خالی کر دی تھیں۔
ان بستیوں کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
1970 سے اسرائیل نے مغربی کنارے میں بستیوں کا ایک نیٹ ورک تعمیر کرنا شروع کر دیا، خاص طور پر ان علاقوں میں جنہیں فوجی اعتبار سے اہم سمجھا جاتا تھا۔
1990 کے اوسلو معاہدوں میں اس علاقے کو اسرائیلی اور فلسطینی کنٹرول کے علاقوں میں تقسیم کردیا گیا تھا جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے لیے بنیاد فراہم کرنا تھا مگر اسرائیل نے اپنی بستیوں کی تعمیر اور توسیع جاری رکھی۔
SEE ALSO: چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ، جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیااقوامِ متحدہ اور بیشتر بین الاقوامی برادری تمام اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہے۔
اسرائیل ان بستیوں میں جن کی اس نے اجازت دی اور ان میں جن کی اس نے اجازت نہیں دی، فرق کرتا ہے حالانکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ اس نے غیر قانونی بستیوں کو پچھلی تاریخوں میں جائز قرار دیا ہے۔
اتوار کے روز اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے اعلان کیا کہ ان نو بستیوں کو قانونی قرار دے دیا جائے گا جن میں سے بعض عشروں سے وہاں موجود ہیں۔ یہ جنوبی الخلیل کی پہاڑیوں، وادی اردن اور شمال میں فلسطینی شہر نابلوس سمیت مغربی کنارے میں جگہ جگہ موجود ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیلی انضمام کے منصوبے پر حماس کا ردِ عمل کیا ہوگا؟"پیس ناؤ" اسرائیل کی ایک ایسی تنظیم ہے جو ان بستیوں کی تعمیر کی مخالف ہے اور اس نے حکومت کے اس اقدام پر نکتہ چینی کی ہے۔
اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے موجودہ بستیوں میں نئے گھروں کی تعمیر کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے تاہم مقامات کی تعداد بیان نہیں کی گئی۔
ان بستیوں کے مقیم کون ہیں؟
حالیہ عشروں میں بہت سے اسرائیلیوں نے سستے گھروں کی تلاش میں ان بستیون کا رخ کیا ہے جنہیں حالیہ عشروں میں حکومت سے اربوں ڈالر کی فنڈنگ بھی حاصل ہوئی ہے۔
حکومت نے ایریل، مآلے اڈومیم جیسے شہروں اور بیتار الیت اور موڈین الیت جیسی انتہائی قدامت پسند بستیوں میں منتقل ہونے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
اس کے علاوہ بہت سے ایسے قوم پرست اور مذہب کے سخت پیروکار بھی ہیں جو مغربی کنارے کو بائیبل میں دیے گئے جودیہ اور سماریہ کی سرزمین گردانتے ہیں اور وہاں رہنے کو مذہبی فریضے کی ادائیگی خیال کرتے ہیں۔
فلسطینی اسرائیلی بستیوں کو کیسے دیکھتےہیں؟
فلسطینی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو جنگی جرم اور امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔
فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل اس تمام علاقے سے ہٹ جائے جس پر اس نے چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا اور تمام یہودی بستیوں کو مسمار کردے۔ تاہم انہوں نے معمولی زمین کے بدلے زمین یا رقم کے تبادلے کو تسلیم کیا ہے۔
اسرائیل 1967 سے پہلے کی پوزیشن پر مکمل واپسی کو خارج از امکان تصور کرتا ہے تاہم ماضی میں وہ مغربی کنارے کے بعض علاقوں سے واپسی پر آمادگی ظاہر کر چکا ہے جب کہ بستیوں کے اپنے سب سے بڑے بلاک کا الحاق چاہتا ہے ۔
تاہم اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہونے اسی ماہ بستیوں کو مضبوط بنانے کا ازسرِ نو عزم ظاہر کیا ہے اور امن بات چیت دوبارہ شروع کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
( اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا)