|
نریندر مودی نے اتوار کو تیسری مرتبہ بھارت کے وزیرِ اعظم کا حلف اُٹھایا ہے۔ تاہم اس مرتبہ اُنہیں مخلوط حکومت چلانی ہے جس کی وجہ سے ماہرین کے مطابق اُنہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کو حالیہ انتخابات میں اکثریت نہیں ملی۔ اسے صرف 240 سیٹیں ملی ہیں۔ جب کہ حکومت سازی کے لیے 272 کی ضرورت تھی۔ نئی اتحادی حکومت ’تیلگو دیسم پارٹی‘ (ٹی ڈی پی) اور ’جنتا دل یونائیٹڈ‘ (جے ڈی یو) کی حمایت سے قائم ہوئی ہے جن کو بالترتیب 16 اور 12 سیٹیں ملی ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم نے جمعے کو حکمراں محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این ڈی اے اچھی حکمرانی کا مترادف ہے اور یہ اتحاد بھارت کی سیاسی تاریخ میں سب سے کامیاب اتحاد ہے۔ ان کے بقول ہم تمام فیصلوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
حلف بردرای سے قبل میڈیا میں دونوں حلیف جماعتوں کے حوالے سے ایسی خبریں تھیں کہ ٹی ڈی پی مرکز میں چار اور جے ڈی یو تین وزارتوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ لیکن ان کو دو، دو وزارتیں دی گئی ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت کو فیصلہ سازی میں ٹی ڈی پی کے صدر چندر بابو نائڈو اور جے ڈی یو کے صدر نتیش کمار کی آراء کو اہمیت دینی ہو گی۔ ملک اور حکومت کے وسیع تر مفاد میں ایسا کرنا ضروری ہو گا۔
متعدد ایشوز پر بی جے پی اور حلیف پارٹیوں میں اختلاف رائے ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی متعدد انتخابی تقریروں میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ سرکاری ملازمتوں میں دلتوں اوردیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے مخصوص نشستیں یعنی ریزرویشن ختم کر دے گی اور اسے مسلمانوں کو دے دے گی۔
جب کہ انتخابی مہم کے دوران ہی ٹی ڈی پی نے اعلان کیا تھا کہ وہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو چار فی صد ریزرویشن دے گی۔ حلف برداری سے قبل بھی ٹی ڈی پی نے اپنے اس وعدے کا اعادہ کیا۔
مخلوط حکومت میں اتحادیوں کا دباؤ
سینئر تجزیہ کار وویک شکلا کہتے ہیں کہ یہ حکومت ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں چلنے والی ’یو پی اے 2‘ کی طرح ہو گی۔ یہ پانچ سال تو چل جائے گی لیکن اس میں کوئی کام نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ٹی ڈی پی کے مطالبے بہت ہیں اور اس کے صدر چندر بابو نائڈو بہت تیز طرار اور الگ قسم کے سیاست داں ہیں۔
وہ وقتاً فوقتاً اپنے مطالبات رکھیں گے اور مودی حکومت ان کو ماننے اور انھیں منانے پر مجبور ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق جے ڈی یو کے صدر نتیش کمار سے حکومت کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ وہ جو مطالبہ کریں گے وہ مان لیا جائے گا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نیرجا چودھری نے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے لیے اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ حلیف پارٹیوں نے چار سال کے لیے فوج میں بھرتی کی اسکیم ’اگنی ویر‘ پر نظر ثانی اور اس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ معاملہ انتخابی ایشو بن گیا تھا۔
انتخابات سے قبل مودی حکومت ملک میں یونیفارم سول کوڈ یعنی تمام مذاہب کے لیے یکساں سول قانون لانے پر زور دیتی رہی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ انتخابات کے بعد پورے ملک میں اسے نافذ کیا جائے گا۔ بعض بی جے پی ریاستوں نے اس کا قانون بھی وضع کیا ہے۔
لیکن مخلوط حکومت میں جب کہ اس معاملہ پر بی جے پی اور حلیف پارٹیوں میں اختلاف رائے ہے۔ اس پر عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
نیرجا چودھری کے خیال میں حکومت اسے پیچھے کر دے گی، اس پر زور نہیں دے گی۔ ان کے خیال میں حلیف پارٹیوں کی ممکنہ مخالفت کے پیشِ نظر مسلم مخالف بیانات اور ہیٹ اسپیچ میں بھی کمی آئے گی۔
SEE ALSO: مودی کی تیسری مدت؛ امریکہ سے تعلقات کیسے ہوں گے؟وویک شکلا کے مطابق اگنی ویر اسکیم پر نہ صرف نظر ثانی کی جائے گی بلکہ اسے ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔ یوں بھی چار سال کے لیے کسی کو ملازمت دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کم از کم پندرہ بیس سال کے لیے تو ملازمت دینی چاہیے۔
ان کا خیال ہے کہ یہ حکومت کسی نہ کسی طرح پانچ سال چل جائے گی۔ کیوں کہ ملک میں اب کوئی بھی وسط مدتی انتخاب نہیں چاہتا۔ الیکشن لڑنے میں اب بہت خرچ آتا ہے۔ نہ تو کوئی پارٹی وسط مدتی انتخاب چاہتی ہے اور نہ ہی کوئی سیاست داں۔
مضبوط اپوزیشن
مودی کی مخلوط حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج مضبوط اپوزیشن کا ہونا بھی ہے۔ 2014 اور 2019 کے انتخابات کے بعد پارلیمان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد بہت کم ہو گئی تھی۔ لیکن اس بار ان کی تعداد 232 ہے۔
نیرجا چودھری کے مطابق حزب اختلاف کے یہ ارکان حکومت کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کا بھی امکان کم ہے کہ گزشتہ پارلیمان کی طرح حکومت اپنی پسند کا بل لا کر منظور کرا لے۔ اب کوئی بھی بل ایوان میں بحث کے بغیر منظور نہیں ہو سکے گا۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ابھی ہنی مون پیریڈ ہے۔ آگے چل کر رکاوٹیں آئیں گی۔ نریندر مودی اپنی مرضی سے حکومت چلانے کے عادی ہیں۔ وہ کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ لہٰذا آگے چل کر حلیفوں سے ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔
اس کا مشاہدہ حلف برداری کے دن ہی ہو گیا۔ مہاراشٹر میں مخلوط حکومت میں شامل اجیت پوار کی ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی‘ (این سی پی) نے مرکزی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات کے 'غیر متوقع' نتائج؛ مسلمان اور دلت ووٹرز کا کیا کردار رہا؟اس کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت میں اس کا ایک کابینہ وزیر تھا۔ اس بار بھی کابینہ وزیر ہونا چاہیے۔ جب کہ مودی حکومت اس کو وزیر مملکت کا عہدے دے رہی تھی۔ اجیت پوار نے کہا ہے کہ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت کے سامنے بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست جماعت ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) میں ہم آہنگی پیدا کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔
حالیہ دنوں میں ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ دونوں میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کا یہ بیان کافی وائرل ہوا تھا کہ اب بی جے پی کافی طاقت ور ہو گئی ہے اور اسے آر ایس ایس کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس بیان کو دونوں میں اختلافات کے طور پر دیکھا گیا۔ آر ایس ایس میں اس بیان کو پسند نہیں کیا گیا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آر ایس ایس آگے چل کر کوئی نہ کوئی قدم اٹھائے گی۔ لہٰذا مودی کے سامنے آر ایس ایس اور بی جے پی میں تال میل بٹھانا بھی ایک چیلنج ہو گا۔
یاد رہے کہ جے پی نڈا کو مرکزی کابینہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اب ان کی جگہ پر کسی اور کو صدر منتخب کیا جائے گا۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ کون ہو سکتا ہے اور وہ اس چیلنج پر کیسے قابو پا سکتا ہے۔
ریاستی حکومتوں کے مطالبات
اس کے علاوہ چندر بابو نائڈو اور نتیش کمار دونوں اپنی اپنی ریاستوں یعنی آندھرا پردیش اور بہار کے لیے خصوصی درجے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نتیش کمار کا مطالبہ ذات برادری کی بنیاد پر مردم شماری کرانا بھی ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کا معاملہ، چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کو ختم کرنا اور دیگر کئی ایشوز ہیں جن پر حلیف جماعتوں کے ساتھ عدم اتفاق پیدا ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ کابینہ میں اقلیتی برادریوں سے پانچ وزرا کو شامل کیا گیا ہے لیکن ان میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان سے کوئی بھی نہیں ہے۔
بی جے پی نے کیرالہ کے ملاپورم سے عبد السلام کو ٹکٹ دیا تھا۔ وہ اس کے واحد مسلم امیدوار تھے اور وہ ہار گئے ہیں۔ اس طرح بی جے پی میں نہ کوئی مسلم ایم پی ہے اور نہ ہی حکومت میں کوئی مسلم وزیر۔