رسائی کے لنکس

طالبان کی پڑوسی ممالک سے سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش، مشکل کیا در پیش ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • طالبان رہنماؤں نے روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے علاوہ ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے صدر سے ملاقات کی ہے۔
  • رواں ماہ کے آخر میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ہونے والی دوحہ کانفرنس میں بھی طالبان رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔
  • مبصرین کے مطابق طالبان اپنے طور پر دعوے تو بہت کر رہے ہیں۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر رہے جس کا تقاضا عالمی برادری ان سے کر رہی ہے۔

افغانستان میں 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان کی عبوری حکومت پڑوسی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ طالبان بتدریج ایران، چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے تگ و دو میں ہیں۔

حال ہی میں طالبان رہنماؤں نے روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے علاوہ ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے صدر سے ملاقات بھی کی ہے۔ رواں ماہ کے آخر میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی ہونے والی دوحہ کانفرنس میں بھی طالبان رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔

بین الاقوامی امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان رہنماؤں کی سفارتی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ لیکن جب تک وہ انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور روزگار جیسے مسائل کے حل پر توجہ نہیں دیں گے، تب تک انہیں اپنی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے اور بین الاقوامی برادری کا اعتماد جیتنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصہ قطر میں گزارنے کے بعد یہ تاثر تھا کہ میدان جنگ میں کامیابی کے بعد طالبان کو سفارتی میدان میں بھی تجربہ حاصل ہو گا اور اب طالبان وہ طالبان نہیں رہے جن کا مسکن ہمیشہ پہاڑ ہوتے تھے۔ تاہم حقیقی معنوں میں ایسی کوئی بھی تبدیلی طالبان کے اندر تاحال سامنے نہیں آئی۔

طالبان کی سفارتی کوششوں پر سمیع یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے دوروں سے باہمی انٹیلی جینس روابط ہی استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ان کے بقول طالبان اپنے طور پر دعوے تو بہت کر رہے ہیں۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر رہے جس کا تقاضا عالمی برادری ان سے کر رہی ہے۔ طالبان اپنے طرز عمل میں قطعاََ کوئی تبدیلی نہیں لا رہے۔ ان کی خواتین کے روزگار اور لڑکیوں کی تعلیم کی پالیسی اسی طرح برقرار ہے اور یہی سب سے اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ طالبان پڑوسیوں اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ جتنی ہی قربتیں بڑھا لیں انہیں سفارتی سطح پر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔

افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں حکومت کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے عالمی برادری کا اپنا ایک معیار ہے اور جب تک اس کی تمام شرائط پوری نہیں کی جاتیں اس میں پیش رفت نہیں ہو سکتی۔

اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افغان صوبہ لوگر کے سابق گورنر محمد حلیم فدائی کا کہنا تھا کہ اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان حکومت نے تاحال کوئی خارجہ پالیسی مرتب نہیں کی۔

ان کے بقول ایک ایسی حکومت جسے باضابطہ طور پر کسی ملک نے تسلیم نہ کیا ہو تو ان کے عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو سفارتی اور قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس عمل کو ایک دھڑے کے ساتھ رابطوں اور تعلق کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن سرکاری سطح پر اس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان حکومت کے نمائندوں کو بھی اب آہستہ آہستہ یہ احساس ہو رہا ہے کہ گزشتہ تین برس کی پالیسیاں خاطرخواہ رنگ نہیں لا رہیں۔

ان کے بقول عالمی برادری اور خطے کے دیگر ممالک کے حکام افغانستان کے دورے اس لیے بھی کرتے ہیں تاکہ وہ امن و امان کے حوالے سے تشویش کے بارے میں انہیں آگاہ کر سکیں۔ تاکہ طالبان حکومت اس تشویش کو دور کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکے۔

امریکہ سمیت عالمی برادری کا مسلسل اصرار رہا ہے کہ طالبان جامع حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم اور دہشت گردی کے معاملے پر عالمی برادری کے تحفظات دور کریں۔

سابق گورنر کے مطابق چین، روس، ایران اور حتیٰ کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے نمائندوں کی افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں تو وہ بھی خواتین کے روزگار، لڑکیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق میں بہتری پر زور دیتے ہیں۔ اس حوالے سے طالبان حکومت کوئی تسلی بخش جواب دینے میں ناکام ہے۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان حکومت کے قیام سے افغانستان میں لڑکیاں چھٹی جماعت سے آگے کی کلاسوں میں تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔

طالبان کا اصرار ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔اس حوالے سے درپیش کچھ تکنیکی معاملات پر قابو پانے پر کام کر رہے ہیں۔

تاہم وہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

سابق گورنر محمد حلیم فدائی کے مطابق طالبان تا حال اپنے عوام کو بھی اس حوالے سے مطمئن نہیں کر سکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت اگر دیکھا جائے تو ملک میں سرے سے کوئی آئین نہیں ہے۔ آئین ہمیشہ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی تائید سے ہی بنتا ہے۔ لیکن طالبان حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو کسی کا جواب دہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی بین الافغان مذاکرات اور انتخابات پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کے بقول بد اعتمادی کی فضا میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی برادری طالبان کو فروری 2020 میں کیے جانے والے دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہی ہے جب کہ طالبان اس حوالے سے الزام عالمی برادری کے سر تھونپ رہے ہیں۔

افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے حوالے سے طالبان کی عبوری حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ ان کی حکومت ازبک، پشتون، ہزارہ، تاجک سمیت تمام برادریوں پر مشتمل ہے۔

محمد حلیم فدائی کے مطابق طالبان حکومت میں مختلف طبقۂ فکر کے افراد ضرور ہیں۔ لیکن وہ تمام طالبان کے ہم خیال افراد ہیں۔ ان کے نظریات طالبان کے طرزِ فکر سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس لیے انہیں عوامی تائید کے حامل افراد قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سوئیڈن میں مقیم عبدالسید نے شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کی ہے۔ وہ حالیہ دنوں میں ہونے والے کچھ اقدامات کو طالبان کے لیے اہم سفارتی پیش رفت قرار دیتے ہیں جن میں اقوامِ متحدہ کا طالبان کے نائب سربراہ اور وزیرِ داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی سمیت چند سینئر طالبان رہنماؤں سے سفری پابندی ہٹانا، متحدہ عرب امارات کے صدر کے ساتھ طالبان کی ملاقات، سعودی عرب کا سفر اور اس کے ساتھ ماسکو اور تہران کی کانفرنسوں کے لیے طالبان وفود کو دعوت شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبد السید کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اور علاقائی طاقتوں کی جانب سے افغان طالبان سے خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی ہٹانے اور افغانستان کی دیگر قوموں کو حکومت میں حصہ دینے کے مطالبات تسلیم نہ کرنے کے بعد طالبان بھی تین سال کی کوشش کے باوجود بیرونی دنیا سے رسمی تعلقات قائم کرنے سے کسی حد تک مایوس ہو چکے تھے جس کا اظہار طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ایک بیان میں کیا تھا۔ ان کے مطابق اس کے باوجود حالیہ دورے طالبان کی بڑی سفارتی کامیابی ہو سکتی ہے۔

عبدالسید کے مطابق اس وقت طالبان کو اپنے اقتدار کی بقا کے لیے دو چیلنج درپیش ہیں۔ ایک بیرونی ممالک کے ساتھ رسمی تعلقات قائم کرنا اور دوسرا داخلی طور پر اپنے مذہبی بیانیے کو برقرار رکھنا، جس کے تحت وہ دو دہائیوں تک جنگ کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذہبی بیانیے کی بقا طالبان کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ اچانک اس سے دستبردار ہو گئے تو افغانستان میں طالبان کے حریف گروہ داعش کے پروپیگنڈے کو تقویت مل سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG