نواز شریف کو وطن واپسی پر کن مقدمات کا سامنا ہو گا؟

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف چار سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد ہفتے کو وطن واپس پہنچ رہے ہیں، لیکن وطن واپسی پر انہیں مقدمات کا بھی سامنا ہو گا۔

قانونی ماہرین کے مطابق اسلام آباد پہنچنے پر نواز شریف کا اسٹیٹس سزا یافتہ مجرم کا ہو گا۔ لیکن ان کی قانونی ٹیم پرامید ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کے خلاف کیسز میں سزا معطل ہو جائے گی اور انہیں جیل نہیں جانا پڑے گا۔

تین مرتبہ وزیرِاعظم رہنے والے نوازشریف وطن واپس آئیں گے تو ایون فیلڈ ریفرنس، العزیزیہ اسٹیل ملز اور توشہ خانہ کیس ان کی آمد کے تیسرے دن سے شروع ہو جائیں گے اور انہیں عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ میں نواز شریف کو 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت دے رکھی ہے۔ لیکن ان کی سزا معطلی کی درخواست پر ابھی سماعت ہونا باقی ہے۔

نواز شریف کو سزا معطلی اور احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے فیصلوں کے خلاف اپیل دوبارہ دائر کرنا پڑے گی۔ عدالتی مفرور ہونے کے باعث اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا کاالعدم قرار دے کر باعزت بری کرنے کی اپیلیں عدم پیروی پر خارج کر دی تھیں۔

نواز شریف کو سزا ملنے والے دونوں کیسز میں سزا معطل کرانی پڑے گی۔

کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اشتہاری ہونے کے باعث انہیں جیل جائے بغیر کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ تاہم بعض قانونی ماہرین اس نکتے سے اختلاف کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ملزم جب عدالت کے سامنے سرینڈر کرے تو عدالت اسے قانون کا سامنا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

SEE ALSO: نواز شریف کی چوتھی واپسی؛ سابق وزیرِ اعظم نے کب کب سیاست میں کم بیک کیا؟

ایون فیلڈ ریفرنس

ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کیس میں ان پر الزام تھا کہ وہ لندن میں موجود اپنی رہائش گاہ ایون فیلڈ میں اپارٹمنٹ خریدنے کے ذرائع بتانے سے قاصر تھے۔

احتساب عدالت نے اس مقدمے میں نواز شریف کو 2018 کے انتخابات سے چند ہفتے قبل قید کی سزا سنائی تھی۔

نواز شریف کے علاوہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو بھی قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم بعد میں دونوں کو ہائی کورٹ سے بریت مل گئی تھی۔ نواز شریف کا کیس ان کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز کیس

العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا ملی تھی۔ اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنہیں 20، 20 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

اس ضمانت میں توسیع کا حق پنجاب حکومت کو دیا گیا تھا جس نے ایسا نہیں کیا۔ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کے لیے بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو دسمبر 2020 کو انہیں اشتہاری قرار دیا تھا۔

توشہ خانہ کیس

تیسرا کیس توشہ خانہ کا ہے جس میں نوازشریف کے خلاف توشہ خانہ سے مرسڈیز گاڑی لینے کا کیس ہے۔

اس ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف بھی گاڑی لینے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ مقدمہ نوازشریف کے بیرون ملک جانے کے بعد قائم کیا گیا جس کی وجہ سے ان کو بارہا نوٹسز کیے گئے اور عدم حاضری پر انہیں احتساب عدالت نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔ نوازشریف کو ان تینوں کیسز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

نوازشریف عدالتی جنگ کیسے لڑیں گے؟

سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم میں شامل جہانگیر جدون ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جب نوازشریف منگل کو عدالت میں آئیں گے تو امکان ہے کہ اس سے پہلے ہی ان کی طرف سے ہفتے یا پیر کو سیکشن 426 کی درخواست دائر ہو جائے گی۔

جہانگیر جدون کے مطابق ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کی سزا پہلے ہی معطل ہے۔ اگر العزیزیہ ریفرنس میں ان کی سزا معطل ہو جاتی ہے تو نواز شریف کو جیل نہیں جانا پڑے گا۔

اُن کے بقول "ہمیں امید ہے کہ پیر یا منگل تک یہ معاملہ حل ہوجائے گا اور نوازشریف جیل نہیں جائیں گے۔"

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور پی ٹی آئی کے قانونی مشیر شعیب شاہین ایڈووکیٹ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت نواز شریف کو حفاظتی ضمانت ملی ہے، ان کی اپیلیں عدم پیروی کی وجہ سے مسترد ہو چکی ہیں۔ اب جب وہ درخواست دیں گے تو اس کے بعد ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیسز میں نیب سمیت دیگر اداروں کو نوٹسز جاری ہوں گے۔

SEE ALSO:

نواز شریف کی واپسی: 'جلسے کی ناکامی کی صورت میں انتخابات کے امکانات کم ہو سکتے ہیں'

شعیب شاہین کے بقول نواز شریف کو جو ریلیف ابھی ملا ہے وہ قانون میں موجود نہیں ہے۔ ایسا بھی قانون نہیں ہے کہ پہلی تاریخ پر ہی ان کی اپیلیں بھی بحال ہو جائیں۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف 24 اکتوبر سے پہلے درخواست دیں تو عدالت میں پیش ہوئے بغیر ان کی اپیلیں نہیں سنی جاسکتیں۔

اُن کے بقول جب وہ عدالت میں آئیں گے تو ہی ان کی اپیلیں بحال ہوں گی۔ اس کے بعد وہ سزا معطلی کی درخواست کریں گے۔ اگر اسی دن ان کی سزا معطلی کی درخواست سنی جائے تو پھر دیکھا جائے گا کہ آیا نہیں ضمانت ملتی ہے یا نہیں۔

شعیب شاہین نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے دی جانے والی ضمانت پر کہا کہ اس میں نیب سے پوچھا گیا کہ انہیں کوئی اعتراض ہے یا نہیں۔ اس مرحلے پر نیب کے اعتراض کا جواز ہی نہیں بنتا کیوں کہ اگر ایک مجرم سرینڈر کر رہا ہے تو اسے آنے سے کوئی نہیں روکے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس وقت ایون فیلڈ میں ان کی سزا معطلی کا کہا جا رہا ہے۔ اس بارے میں شعیب شاہین کہتے ہیں کہ ان کی سزا معطل ہے نہیں بلکہ تھی۔

SEE ALSO: نواز شریف کی واپسی؛ 'سابق وزیرِ اعظم کے لیے اب بہت کچھ بدل چکا ہے'

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اکرام چوہدری ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اب تک جو کچھ عدالتوں میں ہو رہا ہے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ "نواز شریف پلیٹ لیٹس کم ہونے کا کہہ کر گئے تھے، اب واپسی پر اگر ان کے پلیٹ لیٹس پورے ہو گئے تو ٹھیک ورنہ واپس لندن چلے جائیں گے۔"

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں نواز شریف کا جیل جانا تو بنتا ہے اور ان کی اپیل ابھی دائر ہی نہیں ہوئی۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ جیل جائیں گے اور وہاں سے دائر ہونے والی درخواستوں کے بعد ان کی اپیلیں سنی جائیں گی۔

اُن کے بقول عدالت میں ایف آئی اے اور نیب بیان دے کہ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ ان کی سزا معطل کردیں تو پھر نواز شریف کی سزا جلدی معطل ہو سکتی ہے۔

اکرام چوہدری ایڈووکیٹ کے بقول یہ بھی ممکن ہے کہ اگر نواز شریف کو جیل بھجوانے کا کہا جائے تو انتظامیہ ان کے گھر کو سب جیل قرار دیدے۔ یہ اختیار ایگزیگٹو کا ہے اور اگر وہ چاہیں تو اسے استعمال کر سکتے ہیں۔