|
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پارلیمانی انتخابات میں 400 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد ایک بار پھر یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ لوک سبھا کے انتخابات میں کون سی جماعت کتنی نشستیں لے سکے گی۔
وزیرِ اعظم مودی نے انتخابات سے قبل ہی یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہےا کہ اس بار حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کو 370 اور حکمراں محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کو 400 سے زیادہ نشستیں حاصل ہوں گی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو 543 میں سے 303 اور این ڈی اے کو 353 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
وزیر اعظم کے اس دعوے کے سلسلے میں مبصرین اور تجزیہ کار الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ لیکن بیشتر کا خیال ہے کہ بی جے پی تیسری مرتبہ بھی کامیاب ہو سکتی ہے۔
بی جے پی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مختلف محاذوں پر کام کر رہی ہے جن میں عوامی فلاحی اسکیموں کا اعلان، 80 کروڑ افراد کو مفت اناج، خواتین کو بااختیار بنانے کا اعلان، سوشل میڈیا کا استعمال، بیرون ملک آباد بھارتیوں سے رابطہ اور این ڈی اے کو وسعت دینا قابلِ ذکر ہے۔
بیشتر مبصرین یہ خیال بھی ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی کامیابی حاصل کرنے کے لیے مذہبی جذبات کو بھی ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے تحت ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح، شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے نفاذ کا اعلان اور بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے وقتاً فوقتاً جذباتی ایشوز کا اٹھانا بھی شامل ہے۔
بی جے پی کی حکمتِ عملی کیا ہو سکتی ہے؟
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی حکومت نے کرونا کی وبا کے دوران ’پی ایم غریب کلیان یوجنا‘ کے تحت 80 کروڑ افراد کو پانچ کلو اناج مفت دینے کا جو اعلان کیا تھا وہ ایک طرح سے بی جے پی کا ووٹ بینک بن گیا۔ کیوں کہ ان میں سےایسے بہت سے لوگوں کو یہ کہتے سنا جا رہا ہے کہ مودی ہمیں مفت اناج دے رہے ہیں تو ہم انہی کو ووٹ دیں گے۔ اس اسکیم میں رواں سال کی جنوری میں پانچ سال تک کی توسیع کر دی گئی ہے۔
جو فلاحی اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں ان میں ایک کروڑ گھروں کی چھت پر سولر پینل لگانا، بے گھروں کے لیے چار کروڑ گھروں کی تعمیر، چار کروڑ گھروں کی بجلی کاری، 14 کروڑ گھروں میں ’جل جیون مشن‘ کے تحت پینے کا پانی پہنچانا، سب کے لیے صحت اسکیم جس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی صحت اسکیم ہے۔
اس کے علاوہ 11کروڑ کسانوں کو مالی امداد، کسانوں کو قرض کی سہولت، فصلوں کا بیمہ، جن دھن یوجنا کے تحت 28 کروڑ خواتین کے بینک اکاونٹ کھولنا، 10 کروڑ خواتین کو اجولا اسکیم کے تحت رسوئی گیس کا سلینڈر دینا اور طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے سے مسلم خواتین کو راحت ملی ہے اور وہ بی جے پی کی جانب مائل ہوئی ہیں۔ اس کے بقول 2019 کے انتخابات میں بہت سی مسلم خواتین نے بھی اسے ووٹ دیا تھا۔
بی جے پی میں شمولیت کا رجحان
وزیرِ اعظم مودی نے حالیہ دنوں میں متعدد علاقائی جماعتوں کو این ڈی اے میں شامل کیا ہے۔ جب کہ خاص طور پر کانگریس کے بہت سے رہنماؤں کو بی جے پی میں شامل کروایا ہے۔
اپوزیشن پارٹیوں کو این ڈی اے میں شامل کیے جانے کے معاملے پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت اپوزیشن رہنماؤں پر ’انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ‘ (ای ڈی) کے چھاپے ڈلوا کر ڈراتی ہے اور اس کے بعد ان کو بی جے میں شامل کروا دیتی ہے۔
تجزیہ کار رویند رکمار وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بی جے پی ایسا تاثر پیش کر رہی ہے جیسے اپوزیشن جماعتوں میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور ہر کوئی بی جے پی میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ ان کے بقول اگر حکومت اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کا استعمال بند کر دے تو یہ سلسلہ رک جائے گا۔
SEE ALSO: سات مراحل اور 44 دن؛ بھارت میں الیکشن اتنے طویل کیوں ہوتے ہیں؟وہ اس کی تازہ مثال متحدہ آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ چندر بابو نائڈو کی پیش کرتے ہیں جن کو بقول ان کے پہلے جیل میں ڈالا گیا اور اس کے بعد ان کو ضمانت پر رہا کیا گیا اور پھر این ڈی اے میں شامل کیا گیا۔
ان کے مطابق جو رہنما حکومت کی بات نہیں مانتا اس کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ تیلنگانہ کے سابق وزیرِ اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کی بیٹی اور ریاستی کونسل کی رکن کے کویتا کو دہلی شراب پالیسی کیس میں ای ڈی نے گرفتار کیا ہے۔ ان پر مذکورہ پالیسی کے سلسلے میں عام آدمی پارٹی کو مالی فائدہ پہنچانے کا الزام ہے۔ جب کہ عام آدمی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا پہلے سے ہی جیل میں ہیں۔
'ترقیاتی اسکیمیں محض اعلان ہیں'
ادھر بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے جو اسکیمیں شروع کی ہیں ان کا عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں انھوں نے کئی ریاستوں میں ترقیاتی اسکیمیں لانچ کی ہیں۔
سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ مودی نے جن اسکیموں کا اعلان کیا ہے وہ محض اعلان ہیں۔ اب جب کہ انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہو گیا ہے تو ان اسکیموں پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔
اس بارے میں رویندر کمار کہتے ہیں کہ مودی جی صرف اعلان کرتے ہیں ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ ان کے مطابق اجولا اسکیم کے تحت خواتین کو مفت گیس کنکشن دیا گیا تھا لیکن گیس سلینڈر کی قیمت اتنی بڑھا دی گئی کہ وہ اب سلینڈر ہی نہیں خرید پا رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کا استعمال
بی جے پی سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کرتی ہے۔ اس کے لیے جہاں اس کا آئی ٹی سیل مسلسل کام کرتا ہے وہیں متعدد واٹس ایپ گروپ بنا دیے گئے ہیں جنکے ذریعے انتخابی مہم چلائی جاتی ہے۔
اس واٹس ایپ گروپ سے تمام صارفین کو وزیرِ اعظم کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں بھارت کو 2047 تک ترقی یافتہ ملک بنانے اور اس حوالے سے گزشتہ 10 برس کے دوران حکومت کی اسکیموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی صارفین سے اہم تجاویز طلب کی گئی ہیں۔
قبل ازیں بی جے پی نے 300 اضلاع میں کال سینٹرز قائم کئے تھے، اب یہ کال سینٹر 370 لوک سبھا حلقوں میں قائم کیے گئے ہیں۔ ان مراکز سے 21 ہزار کارکن 50 لاکھ یومیہ کال کر کے عوام سے رابطہ قائم کر رہے اور بی جے پی کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کا استعمال بیرون ملک مقیم بھارتیوں یعنی این آر آئیز کو متاثر کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات میں مقیم بھارتیوں کو بھی بھارت کے ایک نمبر سے مذکورہ واٹس ایپ میسج ارسال کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ پی ڈی ایف فارم میں وزیرِ اعظم مودی کا ایک پیغام بھی شامل ہے جس میں انھوں نے انھیں ’میرے پریوار کے لوگ‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پیغام پاکستانی، برطانوی اور اماراتی شہریوں کو بھی موصول ہوا ہے جس پر انھوں نے اظہارِ حیرت کیا ہے۔
اپوزیشن نے اس پیغام کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سینئر کانگریس رہنما اے کے اینٹونی نے الزام عائد کیا کہ وزیرِ اعظم طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ متعدد صارفین نے اپنے ڈیٹا کے لیک ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے۔
پشپ رنجن بتاتے ہیں کہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق دوسرے ملکوں میں مقیم بھارتیوں (این آر آئیز) کی تعداد ایک کروڑ 34 لاکھ اور ’پرسن آف انڈین اوریجن‘ (پی آئی او) کی تعداد ایک کرور 68 لاکھ ہے۔ یہ تعداد مجموعی طور پر تین کروڑ سے زائد بنتی ہے۔
ان کے بقول بی جے پی ان لوگوں کے توسط سے اپنے حق میں رائے بنوانے اور انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) بڑے پیمانے پر کام کرتی ہے۔
پشپ رنجن گجرات یونیورسٹی میں غیر ملکی طلبہ پر نماز کے دوران حملے کے واقعے کو بھی اس سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی وائس چانسلر نیرجا گپتا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حملے کی وجہ صرف نماز نہیں تھی۔ بلکہ غیر ملکی طلبہ کیمپس میں نان ویج کھاتے اور باہر پھینکتے ہیں۔ وہ گجرات کی ثقافت کا احترام نہیں کرتے۔
ان کے خیال میں اس بیان کا مقصد مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنا ہے۔ جب کہ الیکٹورل بانڈز کی جو تفصیلات سانے آئی ہیں ان سے انکشاف ہوا ہے کہ بی جے پی نے میٹ فیکٹریوں کے مالکوں سے بھی چندہ لیا ہے۔ وہ سی اے اے کے نفاذ کے اعلان کو بھی اسی تناطر میں دیکھتے ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی قبائلیوں میں بھی کام کرتی ہے اور اس نے اس محاذ پر بھی کوشش تیز کر دی ہے۔ شمال مشرق کے قبائلی علاقوں میں آر ایس ایس نے بہت کام کیا ہے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو حاصل ہو گا۔