عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی 'لڑائی,' معاملہ کہاں جا کر رُکے گا؟

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنازع میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے۔ پاکستان کی فوج نے حالیہ جلاؤ گھیراؤ کا ذمے دار پی ٹی آئی کو ٹھہرایا ہے جب کہ عمران خان نے بھی موجودہ حالات کا ذمے دار آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو قرار دیا ہے۔

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں تناؤ گزشتہ برس تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے سے شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے براہِ راست الزام تراشی تک پہنچ گیا ہے۔

عمران خان اپنے اُوپر قاتلانہ حملے کا ذمے دار خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے ایک اعلٰی افسر کو قرار دے چکے ہیں جب کہ وہ تواتر کے ساتھ موجودہ فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

نو مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد عسکری تنصیبات کے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے بعد فوج نے سخت ردِعمل دیا ہے جب کہ عمران خان اسے بھی انٹیلی جینس اداروں کی 'سازش' قرار دے رہے ہیں۔

کیا پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان محاذ آرائی مزید بڑھے گی؟ کیا عمران خان کی پارٹی نے ریڈ لائن عبور کر لی ہے؟ کیا سابق وزیرِ اعظم کے فوج کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کا امکان موجود ہے؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

فوجی تنصیبات پر حملے: کیا 'ریڈ لائن' کراس ہو گئی؟

'عمران خان کو کور کمانڈر ہاؤس پر حملے سے لاتعلقی کا اظہارکرنا ہو گا'

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی مفاہمت ہو سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر فریقین تعلقات میں بہتری چاہتے ہوں تو اس کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات لینے ہوں گے۔

اُن کے بقول موجودہ صورتِ حال میں جب کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو پر حملے ہوئے تو عمران خان نے ان کی مذمت یا اس سے اظہارِ لاتعلقی کے بجائے اسے بھی سازش قرار دیا۔ لہذٰا اس سے تلخیاں مزید بڑھیں گی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ایک کمیٹی بنائے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے۔ عمران خان بھی حملوں سے اظہارِ لاتعلقی کریں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے پاس اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹ بینک ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب تک ایسی فوجی قیادت نہیں آ جاتی جو عمران خان کی حمایت کرے، اُن کا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہے۔

'فریقین کا تو تنازع بنتا ہی نہیں'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی تو لڑائی بنتی ہی نہیں ہے۔

اُن کے بقول سیاست دان اپنے مخالف سیاست دان کی ہی مخالف کرتا ہے، فوج کے ساتھ اس کی مخاصمت نہیں بنتی۔

چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اختلافات کو موجودہ حکومت بھی ہوا دے رہی ہے۔

اُن کے بقول موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ جب تک عمران خان اور فوج کی لڑائی رہی گی، اُن کا کام چلتا رہے گا کیوں کہ اگر عمران کی فوج سے صلح ہو گئی تو پھر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے بھی حالیہ بیانات میں کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی اتفاقِ رائے کیا جائے۔


'فریقین میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں'

سینئر تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس وقت صورتِ حال بہت خراب ہے۔ فریقین میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان حالیہ واقعات سے بھی اپنا دامن بچاتے ہوئے ایک بار پھر ایجنسیوں پر الزام تراشی کر رہے ہیں جس سے ماحول مزید خراب ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اب تک نو مئی کے واقعات کی مذمت نہیں کی اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا آغاز ہوا تو اس پر بھی عمران خان کا شدید ردِعمل آئے گا۔ لہذٰا مفاہمت تو بہت دُور کی بات ہے یہ لڑائی توتھمتی بھی دکھائی نہیں دیتی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ فوج کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی اس وقت سب سے مقبول جماعت ہے۔ لہذٰا اس کے ساتھ کھل کر لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔

'اگر عمران خان کے تحفظات ہیں تو وہ دُور ہونے چاہئیں'

چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ جب عمران خان فوج کے کسی افسر پر الزام لگاتے ہیں تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور فوج کو ان کے تحفظات دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ جلد یا بدیر فریقین کو بیٹھ کر ہی معاملات سلجھانا ہوں گے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق دونوں ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ عمران خان اِس وقت سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت کے قائد ہیں۔ اِسی طرح فوج سب سے طاقت ور ادارہ ہے۔ اِس لیے دونوں کو ایک دوسرے کی اہمیت کا اندازہ ہے۔

کیا فریقین کے درمیان مذاکرات ہو سکتے ہیں؟

خیال رہے کہ عمران خان خود کئی انٹرویوز میں یہ تصدیق کر چکے ہیں کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اُن کے اور فوج کے تعلقات بہتر کرانے کی کوشش کی، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

عمران خان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ ملک میں فوری انتخابات چاہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ دوسری جانب افواجِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان اب مجبوری میں مذاکرات پر آمادہ ہوں گے۔ ایسا تب ہی ہو گا جب تمام راستے بند ہو جائیں گے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان نے خود کو ایسی لڑائی میں اُلجھا لیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے اندر تقسیم اُبھر کر سامنے آ سکتی ہے اور حالات اس جانب جاتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ منگل کو کراچی سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رُکن اسمبلی محمود مولوی نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جب کہ پارٹی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری اور علی زیدی کی جانب سے اب نو مئی کے واقعات کی کھل کر مذمت کی جا رہی ہے۔