امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج میں اپنی شکست اب تک تسلیم نہیں کی۔ البتہ وہ 20 جنوری کو نئے صدر کے لیے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ بدھ کی صبح وائٹ ہاؤس سے چلے جائیں گے اور وہ اپنے پیش رووں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسا کریں گے۔
امریکہ کی تاریخ میں کوئی ایک بھی صدر ایسا نہیں گزرا جس نے ایگزیکٹو مینشن سے نکلنے سے انکار کیا ہو۔
مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں کالج آف لا کے پروفیسر برائن کالٹ اس بارے میں کہتے ہیں کہ امریکی نظام تشکیل دینے کا بنیادی اصول یہ تھا کہ ہمارے ہاں لا محدود مدت کے لیے کوئی بادشاہ نہ ہو۔
اُن کے بقول صدر کے پاس چار سال کی مدت ہوتی ہے۔ اگر وہ دوبارہ منتخب ہوتا ہے تو ٹھیک، اگر منتخب نہیں ہوتا تو وائٹ ہاؤس سے چلا جاتا ہے۔
SEE ALSO: جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری کی تیاریاں مکمل، سیکیورٹی انتہائی سختامریکہ کے آئین کے مطابق صدر چار سال کی اپنی مدت کے دوران ہی اپنے دفتر میں بیٹھ سکتا ہے۔
پروفیسر کالٹ کہتے ہیں بیسویں ترمیم کہتی ہے کہ صدر کی مدت بیس جنوری کی دوپہر کو ختم ہو جاتی ہے اور نیا صد حلف لینے کے ساتھ ملک کا نیا صدر بن جاتا ہے۔
ان کے بقول "چار سالہ مدت پوری کرنے والا صدر بیس جنوری کی دوپہر کو صدر نہیں رہتا (اور اگر جانے سے انکار کر دے تو) خلل انداز ہوتا ہے۔
صدر وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کر دے تو کیا ہو گا؟
وائٹ ہاؤس پر قبضہ کسی شخص کو ملک کا صدر نہیں بناتا۔
تاریخ دان بروس ککلک کہتے ہیں "جب نیا صدر حلف لے لے گا تو وہ سیکرٹ سروس یا فوج کو حکم دے گا کہ سبکدوش ہونے والے صدر کو سکیورٹی کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے باہر بھیج دیا جائے۔"
کیٹ ماسور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ اس معاملے پر کہتے ہیں "جو چیز آپ کو صدر بناتی ہے وہ ہے انتخابات کے بعد جیت کی توثیق کے عمل کے بعد تقریبِ حلف برداری میں حلف اٹھانے والا صدر ہونا۔۔۔۔ آئین میں ایسا کچھ نہیں ہے جو کہتا ہو کہ آپ کو ہر صورت وائٹ ہاؤس میں ہونا ہے۔"
حکومت میں شامل عہدیدار پرامن انتقالِ اقتدار میں اہمیت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر فوج، سیکرٹ سروس اور ایف بی آئی سمیت بہت سے وفاقی ملازمین آئین کے دفاع کا حلف اٹھاتے ہیں جس کا مطلب الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں فاتح کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیٹ ماسور کہتی ہیں، "آئین واضح کرتا ہے کہ ایک الیکٹورل کالج ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ صدر کیسے منتخب ہوتا ہے۔ اور اگر آپ آئین کی روشنی میں رائج طریقۂ کار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، جو نئے صدر کے انتخاب کے فریم ورک کو بیان کرتا ہے، تو آپ اپنی ذمہ داریوں کے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔"
تاریخ دان ککلک کا کہنا ہے کہ آئین میں درج مخصوص الفاظ نہیں، سیاسی کلچر اور عوامی رائے کا وزن ہی وہ چیز ہے جو امریکی صدر کو اپنی مدت سے زیادہ اپنے دفتر میں قیام سے روکتا ہے۔
اُن کے بقول، "یہ آئین میں درج ہونے کی بات نہیں ہے۔ یہ حکومت کے کنونشن اور روایات کی بات ہے۔ میرا مطلب ہے (صدر کے انکار) اس طرح کے اقدام کی کوئی حمایت نہیں ہو گی۔"
ککلک کہتے ہیں کہ آزاد اور شفاف انتخابات اور پرامن انتقالِ اقتدار اس تشخص کا ناگزیر حصہ ہیں جو امریکی اپنے لیے دیکھتے ہیں۔ اور اس طرح کے کنونشنز ایسی چیز نہیں جن کی ان کو زیادہ پرواہ نہ ہو۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ "اگر آپ امریکی شہری ہیں، اور کنڈر گارڈن یعنی پہلی جماعت میں بھی گئے ہیں تو آپ نے کہانیاں سن رکھی ہیں کہ امریکہ کیسے چلتا ہے اور آئینی جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ اور آپ نے اپنی زندگی میں دیکھ رکھا ہے کہ صدور نے انتخابات ہارے ہیں اور وہ اقتدار چھوڑ گئے ہیں تو یہ بات آئینی حکومت کی عظمت کا ایک حصہ ہے۔ یہ چیز ان کے ساتھ پروان چڑھی ہے اور ان کے اندر راسخ ہو چکی ہے۔"