پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے (نیب) نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو زیر تفتیش 'القادر ٹرسٹ' کیس میں گرفتار کیاگیا ہے۔
نیب نے منگل کو رینجرز کی معاونت سے عمران خان کو اس وقت تحویل میں لیا جب وہ اپنے خلاف مقدمات میں پیشی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھے۔
نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں کرپشن کے جرم میں حراست میں لیا گیا ہے۔
عمران خان کے خلاف زیرِ تفتیش القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے؟ اس بارے میں ذیل میں کچھ جائزہ لیا گیا ہے۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں 'القادر ٹرسٹ'کی بنیاد 2019 میں رکھی گئی جس کے ٹرسٹی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرح گوگی ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور عمران خان کی مختلف مقدمات میں پیروی کرنے والے وکیل بابر اعوان بھی اس ٹرسٹ کے بورڈ کا حصہ رہے ہیں۔
القادر ٹرسٹ اُس وقت قائم کیا گیا تھا جب اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے ایک لفافے میں بند کاغذ پر درج سمری کی منظوری لی تھی۔ جس کے تحت برطانیہ سے پاکستان کو موصول ہونے والے 190 ملین پونڈ کی رقم کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا گیا تھا۔
پاکستان کو یہ رقم بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ میں ایک تصفیے کے نتیجے میں منتقل کی گئی تھی۔
SEE ALSO: عمران خان کی گرفتاری؛ مشتعل مظاہرین فوج کے ہیڈکوارٹر میں داخلبحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔
لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں۔
اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔
عمران خان کی کابینہ کے رکن فیصل واوڈا یہ کہہ چکے ہیں کہ کابینہ نے بند لفافے میں سمری کی منظوری دی تھی جو کہ برطانیہ سے موصول 190 ملین پونڈ کی ملک ریاض کی جرمانے کی ادائیگی کے لیے منتقل کی گئی۔
تین دسمبر 2019 کو وفاقی کابینہ سے بند لفافے میں سمری کی منظوری کے بعد حکومت نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
دوسری جانب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی ملک ریاض سے کیے جانے والے معاہدے کی تفصیلات رازداری میں رکھیں۔اس کے نتیجے میں ملک ریاض نے مبینہ طور پر القادر ٹرسٹ کو جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں 458 کنال اراضی کی منتقلی کی جس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ ہیں۔
موجودہ حکومت کے آنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 'القادر ٹرسٹ' کو ملک ریاض کی جانب سے منتقل ہونے والی زمین کے معاملے پر غور کیا گیا اور اس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا گیاتھا۔
نیب نے القادر ٹرسٹ کی تحقیقات کے لیے عمران خان اور اس وقت کے وفاقی کابینہ کے اراکین سمیت متعدد افراد کو نوٹس جاری کیے تھے اور گزشتہ ماہ اس کی تحقیقات کو تفتیش میں تبدیل کیا تھا۔
نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ یکم مئی کو جاری کیے گئے تھے لیکن انہیں منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت سے گرفتار کیا گیا۔
نیب کے نئے قانون کے تحت عمران خان کو اس مقدمے میں 14 روز تک تحویل میں رکھا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل نیب اس قسم کے مقدمے میں کسی بھی فرد کو 90 روز تک اپنی تحویل میں رکھ سکتی تھی تاہم موجودہ حکومت نے نیب قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے ریمانڈ کی مدت کو 90 دن سے کم کرکے 14دن کر دیا تھا۔