رسائی کے لنکس

بھارت: کرناٹک اسمبلی کے انتخابات بی جے پی اور کانگریس کے لیے اہم کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے لیے مہم پیر کی شب ختم ہوگئی۔ اس دوران سب ہی اہم سیاسی جماعتوں نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

ریاستی اسمبلی کی 224 نشستوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب کرنے کے لیے بدھ کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ووٹوں کی گنتی 13 مئی کی صبح کو شروع ہوگی اور ممکنہ طور پر اُسی شام نتائج آ جائیں گے۔

ان انتخابات میں اصل مقابلہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں کانگریس اور جنتا دل سیکیولر (جے ڈی ایس) کے درمیان ہے۔ دہلی اور پنجاب میں بر سرِ اقتدار عام آدمی پارٹی بھی انتخابات میں اپنا لوہا منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان جماعتوں کے علاوہ دلت لیڈر مایا وتی کی قیادت میں بہوجن سماج پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اور اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین سمیت آزاد امیدوار کی بڑی تعداد بھی میدان میں ہے۔

سوا پانچ کروڑ ووٹر، ڈھائی ہزار امیدوار

کرناٹک میں رائے دہندگان کی کل تعداد پانچ کروڑ 24لاکھ ہے جن میں سےلگ بھگ نو لاکھ نوجوان پہلی بار حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔

ان انتخابات میں قسمت آزمائی کرنے والے دو ہزار چھ سو 13امیدواروں میں 185 خواتین بھی شامل ہیں جب کہ ایک خواجہ سرا الیکشن میں حصہ لے رہا ہے۔

بی جے پی نے تمام 224نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں جب کہ کانگریس نے 223 اور جے ڈی ایس نے 207 امیدواروں کو میدا ن میں اُتارا ہے۔

بی جے پی نے 2018 کے انتخابات میں 104 نشستیں حاصل کر کے ریاست میں حکومت بنائی تھی۔ اس بار انتخابی مہم میں خود وزیرِ اعظم نریندر مودی پیش پیش نظر آئے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو امید ہے کہ ان کی شخصیت کا کرشمہ بی جے پی کو ریاست میں دوبارہ حکومت بنانے میں مدد کرے گا۔

انتخابی نتائج کے عام انتخابات پر اثرات

کرناٹک کی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی بی جے پی کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ بھارت کے کئی سیاسی مبصرین کی رائے میں کرناٹک کے انتخابی نتائج آئندہ برس عام انتخابات کے لیے رجحان ساز ثابت ہوسکتے ہیں۔

بی جے پی کے مقابلے میں جے ڈی ایس کی انتخابی مہم زیادہ جارحانہ نہیں تھی ۔ پارٹی کی الیکشن مہم کی قیادت سابق وزیرِ اعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی نے کی۔ مہم میں زیادہ تر مقامی ایشوز کو اٹھایا گیا اور لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ریاست میں صاف ستھری حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔

کانگریس نے ریاست میں گزشتہ پانچ سال کے دوران بی جے پی کی حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ قومی سطح کے معاملات کو بھی مدعا بنایا گیا۔کانگریس کی انتخابی مہم کی قیادت میں سابق وزیرِ اعلیٰ سدھار میا، ریاستی صدر ڈی کے شیو کمار کے ساتھ ساتھ کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے پیش پیش تھے۔

انتخابی مہم کے آخری مرحلے پر کھڑگے نے اپنی ہوم اسٹیٹ کرناٹک کے عوام سے یہ جذباتی اپیل کی کہ وہ ڈھلتی عمر کے دورسے گزر رہے ہیں اور ان کی جان کو بی جے پی سے خطرہ ہے۔

دوسری جانب کانگریس کے مرکزی رہنما راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی نے بھی ریاست کے دورے کیے تاکہ نوجوانوں کو کانگریس کی جانب متوجہ کیا جا سکے۔

بی جے پی اور کانگریس میں الزامات کا تبادلہ

کانگریس اور بی جے پی نےایک دوسرے پر الزامات لگائے ہیں اور تنقید کی ہے۔ دونوں پارٹیوں نے الیکشن کمیشن میں ایک دوسرے کے خلاف کئی شکایتیں بھی درج کرائیں۔

بی جے پی نے کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی کے خلاف تازہ شکایت اس حالیہ بیان پر کی ہے جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کرناٹک کی خود مختاری کا ذکر کیا ہے۔ انتخابی کمیشن نے کانگریس کے صدر کھڑگے سے اس بارے میں وضاحت طلب کر لی ہے۔

وزیرِ اعظم مودی نے میسور میں انتخابی ریلی میں خطاب کے دوران سونیا گاندھی کے مبینہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس پارٹی کا شاہی پریوار ( خاندان) چاہتا ہے کہ کرناٹک بھارت سے الگ ہوجائے۔

وزیرِ اعظم کے اس بیان پر کانگریس کے جنرل سیکریٹری رندیپ سرجی والا نے کہا تھا کہ مودی اپنی پارٹی کی حکومت پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کا جواب دیں۔

کانگریس پارٹی نے کرناٹک میں ریاستی حکومت کی انتظامی کمزوریوں ، مبینہ کرپشن اور بدنظمی کے الزامات کے علاوہ بی جے پی پر مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام لگایا۔

دوسری جانب بی جے پی نے زیادہ تر قومی اہمیت کے معاملات اٹھائے اور مرکزی حکومت کے ایسے منصوبوں کو اپنی کامیابیوں کے طور پر ووٹروں کے سامنے پیش کیا جن کا مقصد عوامی فلاح و بہبود ہے۔

عوامی حمایت کے دعوے

کانگریس دعویٰ کرتی ہے کہ اس مرتبہ وہ کرناٹک میں واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت بنالے گی۔ گزشتہ انتخابات میں اس نے 80 نشستیں حاصل کی تھیں جب کہ جے ڈی ایس کو 37 نشستیں ملی تھیں۔

دوسری جانب حکمران بی جے پی کا کہنا ہے کہ اسے 130سے135 حلقوں میں نمایاں کامیابی ملے گی ۔

کرناٹک کے سیاسی منظر نامے پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ ریاست میں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ہر اسمبلی الیکشن میں حکمران جماعت کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مبصرین کے مطابق بی جے پی کے لیے ایک بڑا مسئلہ کرناٹک کے بااثر فرقے لنگایت کا کانگریس کی طرف جھکاؤ ہے۔

لنگایت فرقے کے ایک طاقتور گروپ ’ویر شیو لنگایت فورم‘ نے گزشتہ دنوں کانگریس کی حمایت کرتے ہوئے ایک کھلا خط جاری کیا تھا جس میں اس نے لنگایت برادری کے ووٹروں پر زور دیا کہ وہ ان انتخابات میں کانگریس کے امیدواروں کو ووٹ دیں۔

لنگایت فرقے کو بی جے پی کا روایتی ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے اور اس کی حمایت کی بدولت بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ۔

موجودہ وزیرِ اعلیٰ بسو راج بومئی نے، جو خود لنگایت فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس بات کی تردید کی ہے کہ لنگایت ووٹرز کانگریس کو ووٹ دیں گے۔

انتخابی منشور

مبصرین کے مطابق کانگریس کا پلڑا اگرچہ کئی انتخابی حلقوں میں بھاری ہے۔ لیکن اس کے انتخابی منشور میں یہ وعدہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد بجرنگ دل پر پابندی لگادے گی۔

مبصرین کہتے ہیں کہ بی جےپی کرناٹک کے ووٹروں کے ایک بڑے حلقے میں حالیہ برسوں میں مذہبی تقسیم کے پس منظر میں یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے کہ کانگریس ایک ہندو مخالف سیاسی تنظیم ہے۔

کانگریس کے رہنماؤں نے 100 سے زیادہ عوامی جلسوں اور تین درجن روڑ شوز کے دوران بار بار کرناٹک کو بی جے پی کی مرکزی حکومت کی طرف سے نظر انداز کرنے کا مدعا اٹھایا اور امید ظاہر کی کہ ووٹر اس کویاد رکھیں گے۔

جے ڈی ایس کی قیادت سمجھتی ہے کہ وہ ان انتخابات کے نتیجے میں ' کنگ میکر' یا بادشاہ گر کے طور پر ابھرے گی ۔

منگل کو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کرناٹک کے رائے دہندگان کے نام کھلا خط جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری 'آزادی کے امرت کال (سنہری دور)' کے دوران ہم ہندوستانیوں نے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا عزم کیا ہے۔بھارت پانچویں بڑی عالمی معیشت ہے۔ ہمار ا اگلا مقصد تین بڑی معیشتوں تک پہنچنا ہے۔یہ تب ہی ممکن ہے جب کرناٹک تیزی کے ساتھ 10 کھرب امریکی ڈالر کی معیشت بنے گا۔"

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ خواب بی جے پی کی قیادت ہی میں شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG