کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنٹس کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ پیر کو کینیڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب میں ٹھوس معلومات کی دست یابی کا ذکر تو کیا تھا تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں۔
گزشتہ ہفتے کے روز بھارت میں تعینات امریکہ کے سفیر ڈیوڈ کوہن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انٹیلی جینس اتحاد ’فائیو آئیز‘ نے کینیڈا کو ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے متعلق معلومات فراہم کی تھیں جس کی بنیاد پر وزیرِ اعظم ٹروڈو نے بھارت کے ملوث ہونے سے متعلق بات کی تھی۔
اس بیان کے بعد کینیڈا اور بھارت کے مابین سفارتی کشیدگی کا باعث بننے والے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور اس کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ اب انٹیلی جینس شیئرنگ کے اتحاد ’فائیو آئیز‘ کا کردار بھی زیرِ بحث ہے۔
حالیہ برسوں کی بات کی جائے تو ستمبر 2021 میں جب سیکیورٹی خدشات کی بنا پر نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا دورۂ پاکستان منسوخ ہوا تو یہاں خبروں میں ’فائیو آئیز‘ کی بازگشت سنائی دی۔ نیوزی لینڈ نے فائیو آئیز کی جانب سے دیے گئے تھریٹ الرٹ کو دورے کی منسوخی کی وجہ قرار دیا تھا۔
فائیو آئیز انٹیلی جینس نیٹ ورک میں پانچ ممالک امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا شامل ہیں اور اس انٹیلی جینس نیٹ ورک کی تاریخ دوسری عالمی جنگ سے جا ملتی ہے۔
انٹیلی جینس اتحاد کیسے بنا؟
سن 1939 میں شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ میں محوری قوتیں اور اتحادی مدمقابل تھے۔ محوری قوتوں میں جرمنی، اٹلی اور جاپان شامل تھے جب کہ ان کے مقابل فرانس برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین اتحادی کیمپ کا حصہ تھے۔
ابتدائی طور پر امریکہ اور برطانیہ کے درمیان 1941 میں ہونے والے ’اٹلانٹک چارٹر‘ سے اس اتحاد کی بنیاد پڑی۔ 1943 میں امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے ’بروسا‘ معاہدے کے بعد اس تعاون میں مزید اضافہ ہوا۔
SEE ALSO: خالصتان تحریک بھارت اور کینیڈا کے درمیان تنازع کا سبب کیوں؟سن 1946 میں جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو برطانیہ کے وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے اتحادیوں کے ساتھ ’خصوصی تعلق‘ کی بات کرنا شروع کر دی۔ ان کا اشارہ امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ انٹیلی جینس کے تبادلے کی سطح پر تعلقات قائم کرنے کی جانب تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد بروسا معاہدہ 1946 تک یو کے۔یوایس اے ایگریمنٹ میں تبدیل ہو گیا۔ امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ اب اس معاہدے میں آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہو گئے۔
سرد جنگ اور ’وار آن ٹیرر‘
انٹیلی جینس ماہرین کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ سوویت یونین کی ’سرد جنگ‘ کا آغاز ہوا تو اس کے ساتھ ہی خفیہ معلومات کے تبادلے کو مزید اہمیت حاصل ہو گئی۔
فائیو آئیز پر مرتب ہونے والی کتاب ’دی برج ان دی پارکس: دی فائیو آئیز اینڈ کولڈ وار‘ کے مطابق سرد جنگ کے دوران سوویت یونین نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اپنی خفیہ سرگرمیاں تیز کردی تھیں۔
سوویت یونین کی جاسوسی اور خفیہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے فائیو آئیز ممالک نے 1960 کی دہائی میں ’ایشلون‘ نامی سرویلیئنس پروگرام کا آغاز کیا۔ تاہم نگرانی کا یہ پروگرام کئی دہائیوں تک خفیہ رہا۔
’دی برج ان دی پارک‘ کے مطابق سرد جنگ ختم ہونے کے بعد نائین الیون کے واقعات نے ایک بار پھر فائیو آئیز کے انٹیلی جینس شیئرنگ کے نظام کو مزید متحرک کیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران فائیو آئیز کے باہمی تعاون سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں روکنے میں مدد ملی۔ 2006 میں امریکہ اور برطانیہ نے انٹیلی جنس شیئرنگ کر کے دس طیاروں میں دھماکہ کرنے کے منصوبے کو ناکام بنایا۔
SEE ALSO: بھارت، کینیڈا سفارتی کشیدگی کا نئی دہلی پر کیا اثر پڑے گا؟ماہرین کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس اتحاد نے اپنے ماضی کے حریف روس اور 2018 کے بعد چین کی جاسوسی کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھنا شروع کردی۔
فائیو آئیز کے باہمی تعاون سے 2010، 2016 اور 2018 میں کئی روسی جاسوسوں کی گرفتاریاں بھی ہوئیں اور جاسوسی کے نیٹ ورک ختم کرنے میں مدد ملی۔
فائیو آئیز کام کیسے کرتے ہیں؟
فائیو آئیز سے متعلق 2013 میں ایک بڑا تنازع اس وقت سامنے آیا جب امریکہ کے خفیہ ادارے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے لیے کام کرنے والے سابق اہل کار ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی خفیہ ادارے این ایس اے، برطانیہ کی ایجنسی جنرل کمیونی کیشنز ہیڈ کوارٹرز (جی سی ایچ کیو) اور فائیو آئیز کے دیگر اداروں پر جاسوسی کرتے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
ایڈورڈ سنوڈن نے انٹیلی جینس سرگرمیوں سے متعلق متعدد دستاویزات بھی عام کردیں اور دعویٰ کیا کہ فائیو آئیز میں شامل ممالک ایک دوسرے کے شہریوں پر جاسوسی کر کے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
سنوڈن کا الزام تھا کہ شہریوں پر جاسوسی کرتے ہوئے فائیو آئیز اپنے قوانین کی بھی پروا نہیں کرتے تاہم فائیو آئیز نے اس الزام کی تردید کی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ معلومات کی رسائی کے لیے قوانین کی مکمل پاس داری کی جاتی ہے۔
انٹیلی جینس ماہرین کے مطابق فائیو آئیز میں تکنیکی اور مالی وسائل کے اعتبار سے امریکہ سب سے آگے ہے جب کہ برطانیہ کے پاس جاسوسی کا سب سے طویل تجربہ ہے۔
ان کے مطابق امریکہ اور برطانیہ سمیت فائیو آئیز میں شامل سبھی ممالک اپنے معلومات کے تبادلے میں اپنے مفادات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک سابق امریکی انٹلی جینس افسر کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ فائیو آئیز اپنے ممالک میں موجود کسی بھی مشتبہ شخص کے فون کال ریکارڈ یا نمبر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پہلے متعلقہ حکومت سے رابطہ کرتے ہیں۔
SEE ALSO: کینیڈا: سکھ رہنما کے قتل میں بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کی چھان بینکسی بھی اہم معلومات کی تصدیق اور از سر نو جائزے کے لیے بھی انٹیلی جینس حکام ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ تاہم معلومات تک رسائی کے لیے پہلے یہ بتانا ضروری ہوتا ہے کہ اس کی معلومات حاصل کرنا مغربی ممالک کو درپیش کسی خطرے سے مقابلے کے لیے کتنا اہم ہے۔
دست یاب معلومات کے مطابق فائیو آئیز خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے رابطے کے برقی ذرائع کی نگرانی کرتے ہیں۔ اپنے قیام کے بعد سے فائیو آئیز نے خفیہ معلومات جمع کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔
دیگر اتحادوں سے کیسے مختلف ہے؟
دنیا میں فائیو آئیز کے علاوہ بھی خفیہ معلومات کے تبادلوں کے لیے باہمی تعاون کے معاہدے اور بندوبست پائے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو میں شامل ممالک میں بھی اہم خفیہ معلومات رکن ممالک کو فراہم کرنے کا انتظام موجود ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ بھی فرانس، جرمنی اور جاپان جیسے اتحادیوں کے ساتھ حساس نوعیت کی معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ داعش کا چیلنج سامنے آنے کے بعد امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اس شدت پسند تنظیم سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتا رہا ہے۔ تاہم فائیو آئیز کو انٹیلی جینس شیئرنگ اور باہمی تعاون کا سب سے مؤثر اتحاد کہا جاتا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق فائیو آئیز بہت سی معلومات صرف رکن ممالک تک محدود رکھتے ہیں اور کسی معاملے کی نوعیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسے دوسرے ممالک کو فراہم کرتے ہیں۔
لیکن دیگر ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ عام طور پر کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر ہوتا ہے جب کہ فائیو آئیز ایک دوسرے کو جو معلومات فراہم کرتے ہیں اس کے بدلے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہی ان کا مقصود ہوتا ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر کیس میں فائیو آئیز کینیڈا کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟
کینیڈا میں قومی سلامتی اور انٹیلی جینس امور کے ماہر ویزلی وارک کا کہنا ہے نجر کیس سے متعلق فائیو آئیز کینیڈا کو اس کارروائی میں ملوث افراد، ان کے طریقۂ واردات اور انٹر سیپٹ کیے گئے رابطوں کی تفصیلات فراہم کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کئی ماہ سے اس معاملے کی تحقیقات کررہا تھا تاہم فائیو آئیز کی جانب سے اسے ایسے شواہد ملے ہیں جس نے بھارتی حکومت کے اس معاملے میں ملوث ہونے سے متعلق ان کی جمع کی گئی معلومات کی تصدیق کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ بھارت ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کر چکا ہے۔
البتہ کینیڈا کی جانب سے الزامات سامنے آںے کے بعد جہاں دونوں ممالک میں سفارتی تلخیاں بڑھی ہیں وہیں بھارت نے خالصتان تحریک سے مبینہ طور پر وابستہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں بھی اضافہ کردیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی نیشنل انٹیلی جینس ایجنسی (این آئی اے) نے خالصتان تحریک سے تعلق اور غیر قانونی سرگرمیوں کے الزامات کی بنا پر ایسے 19 مفرور افراد کی فہرست تیار کرلی ہے جو اس وقت کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔
رپورٹس کے مطابق این آئی اے بھارت میں ان مفرور افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرچکی ہے جس میں غیر قانونی سرگرمیوں کی انسداد کے قانون یو اے پی اے کے تحت جائیداد بھی ضبط کی جارہی ہے۔
فائیو آئیز میں شامل ممالک کے کینیڈا اور بھارت دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس لیے کینیڈا کے ساتھ موجودہ بحران میں بھارت کے لیے فائیو آئیز کی فراہم کردہ معلومات ایک چیلنج ثابت ہوسکتی ہیں۔