اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر فاروق نے سابق وزیرِ اعظم کے حوالے سے ریمارکس دیے ہیں کہ عمران خان کو اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پیر کو سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کے تمام انڈر ٹرائل قیدی اڈیالہ جیل میں ہیں ۔ پھر عمران خان ابھی تک اٹک جیل میں کیوں قید ہیں۔ ان کو اڈیالہ جیل میں کیوں نہیں رکھا گیا؟
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی سزا کا اسٹیٹس تبدیل ہو چکا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کو اٹک جیل میں رکھے جانے کے حوالے سے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اوریجنل آرڈر توشہ خانہ میں اڈیالہ جیل میں رکھنے کا تھا ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جب سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ہوئی تو عدالتی آرڈر اٹک جیل میں رکھنے کا تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل آپ کو رحیم یار خان ٹرانسفر کرکے بھیجا دیا جائے تو وہاں سے ٹرائل کریں گے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل سے اس معاملے میں جواب طلب کر لیا ہے۔
اٹک جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم کے حوالے سے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔
اس دوران عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے عدالت سے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی اسپورٹس مین ہیں۔ انہیں ایکسرسائز مشین فراہم کی جائے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب جیل میں عام اور بہتر کلاس ہوتی ہے۔ عمران خان بہتر کلاس کے حق دار ہیں۔ جیل کے قواعد کے مطابق وہ جن چیزوں کے حق دار ہیں وہ انہیں ملنی چاہئیں۔
چیئرمین تحریکِ انصاف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جائے۔
جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ان کی کوشش ہو گی کہ اڈیالہ جیل منتقلی کا تحریری حکم نامہ آج ہی جاری کر دیا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے سابق وزیرِ اعظم کو توشہ خانہ کیس میں تین برس قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد انہیں گرفتار کرکے اٹک جیل منتقل کیا گیا تھا۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے اور ان کی مالیت کم ظاہر کر کے اس کا بھی کچھ حصہ ادا کرنے کے بعد یہ قیمتی تحائف اپنے پاس رکھنے کا کیس تھا۔
بعد ازاں اگست کے آخری دنوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم اسی دن آفیشل سیکریٹس ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان کو پیش کرنے اور ان کو اٹک جیل میں رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
عمران خان نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک خط لہرایا تھا جو ان کے مطابق وہ مبینہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا جس میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کو ہٹانے کا کہا گیا تھا۔
امریکہ اس بارے میں عمران خان کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کی پریس بریفنگزمیں بھی اس بارے میں متعدد بار پوچھے گئے سوالات میں عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا گیاہے۔
اپریل 2022 میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے حکومت ختم کرنے کی سازش کی۔ بعد ازاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سازش میں شامل قرار دیا۔
اس سائفر کی تحقیقات کا آغاز شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے کیا تھا۔اس بارے میں عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناع حاصل کیا تھا لیکن جولائی 2023 میں عدالت نے یہ حکم امتناع ختم کر دیا تھا۔
اس کیس میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے جولائی میں اسلام آباد میں مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے سرکاری دستاویز گم کرنے، اور سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے اس سائفر کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
حکومت نے کہاتھا کہ اس کیس میں عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی جس کے سیکشن پانچ کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پرسرکاری خفیہ دستاویز کو اجازت کے بغیر افشا کیا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم انسدادِ دہشت گردی عدالت نےجس کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کا درجہ دیا گیا تھا، سائفر کیس میں عمران خان کو پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔عمران خان کے خلاف خفیہ سفارتی معلومات کو منظرِ عام پر لانے پر مبنی سائفر کیس کی پہلی سماعت 30 اگست کو اٹک جیل میں ہوئی تھی۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین عمران خان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے لیےاٹک جیل جا رہے ہیں اور وہ ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کر تے رہے ہیں۔