پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن جماعتیں سلیکٹڈ تو کہتی تھیں مگربہت سے مبصرین کے مطابق حکومت کے خاتمے کے لیے اس کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی اصل وجہ بنی۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی، بڑھتا ہوا بیرونی قرضہ اور نا ختم ہونے والا مہنگائی کا سلسلہ وہ وجوہات ہیں جنہوں نے ناقدین کے بقول ملک کو معاشی بحران میں دھکیلا۔
نئی حکومت کے چارج سنبھالتے ہی نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل قرضوں کی ادائیگیوں کے معاملے کو سنبھالنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کے لیے واشنگٹن پہنچے اور موجودہ پروگرام میں مزید دو ارب ڈالرز کا اضافہ کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
وزیرِ خزانہ کی وطن واپسی پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات پر تمام سبسڈیز واپس لے لی جائیں گی اور بزنس ٹیکس ایمنسٹی ختم کر دی جائے گی۔ ماہرین آنے والے دنوں میں مہنگائی کی شرح 15 فی صد تک چھونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔
یعنی آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کی توقع ہے اور معاشی ماہرین عوام کو غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
مگر آج کل پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہو، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو، وزیر اعظم عمرے پر جا رہے ہوں، ہر معاملہ ملک کے موجودہ گرم سیاسی ماحول کی روشنی میں ہی زیر بحث ہے۔
جس مہنگائی کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف مستقل تنقید کی زد میں تھی اس کے مزید بڑھنے پر اب اس کے حامی موجودہ حکومت کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ یہ تو آنے والے دنوں میں ظاہر ہوتا ہی رہے گا مگر سوشل میڈیا صارفین یا مخالفین وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو گزشتہ دو روز سے اس لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ انہیں کیوں نہیں پتا کہ ویب 3.0 کیا ہے؟
ویب 3.0 اور مفتاح اسماعیل کی لا علمی
یہ سارا قصہ اس وقت شروع ہوا جب واشنگٹن ڈی سی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کاؤنسل کی ایک گفتگو میں ماہر معیشت عزیر یونس نے ان سے سوال کر ڈالا کہ وہ دنیا میں ترقی کرتی ویب تھری معیشت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
عزیر یونس نے مزید کہا کہ ان کی اور ان کے ساتھی کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگلے بیس سالوں میں ویب تھری معیشت کا حجم پاکستان میں صرف ٹیلنٹ ایکسپورٹ کی مد میں ہی 100 ارب ڈالرز بنتا ہے۔
مفتاح اسماعیل جن کی پوری توجہ اس وقت ملکی معیشت کی موجودہ پتلی حالت پر مرکوز ہے گویا یہ سوال ان کے لیے کسی گگلی سے کم نہیں تھا جس کا انہوں نے سادگی سے یہ جواب دیا کہ انہیں ویب تھری کے بارے میں ابھی کچھ نہیں پتا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ انہیں یہ ضرور معلوم ہے کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی اور فن ٹیک کمپنیز نے بہت توجہ حاصل کی ہے اور وہ چاہیں گے کہ وہ مزید ترقی کریں۔
وزیرِ خزانہ کے مطابق ان کے نزدیک حکومت ان کمپنیز سے فی الحال جتنا دور رہے اتنا ہی ایسی کمپنیز کے لیے اچھا ہے۔البتہ حکومت چاہے گی کے انہیں ریگیولیٹ کرنے اور ٹیکس نیٹ میں لانے سے پہلے انہیں پھلنے پھولنے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔
بس پھر کیا تھا۔۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر مفتاح اسماعیل پر تنقید ہونے لگی کہ انہیں ملک کا وزیرِ خزانہ ہوتے ہوئے ویب تھری کے بارے میں نہیں معلوم۔ صارفین اپنے اپنے طور پر اس بات پر رائے دینے لگے کہ ملک کے وزیرِ خزانہ کے لیے ویب تھری کے بارے میں لاعلمی کس قدر شرمندگی کی بات ہے حالانکہ بہت ممکن ہے اسی وقت گوگل پاکستان پرسب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا لفظ ویب تھری یا ویب 3.0 ہی ہو کیوں کہ اس لفظ یا اصطلاح سے بہت سے لوگ ناواقف ہوں گے۔
ویب تھری یا ویب 3.0 کیا ہے؟
دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور انسان ٹیکنالوجی میں ترقی کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ بطور ٹیکنالوجی صارف ہمیں شاید خود بھی یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ ہم کس تیزی سے سفر کر رہے ہیں جب تک ہم مڑ کر نا دیکھیں۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو ٹائپ رائٹر استعمال کرنے والے اور رجسٹر میں ڈیٹا درج کرنے والے رہے ہیں۔ پھر بھاری بھرکم کمپیوٹرز آئے۔ ایک کے بعد ایک تیز پروسیسرز آتے رہے اور کمپیوٹرز جدید ہوتے ہوتے گود میں رکھ کر کام کرنے والا لیپ ٹاپ بن گیا۔ اب یہی کمپیوٹرا سمارٹ فون بن کر ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔
اسی فون پر پہلے ویب سائٹس اور ڈیٹا بہت سست روی کے ساتھ نمودار ہوتا تھا مگر ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ 2G، 4G ،3G کے بعد اب سمارٹ فون ٹیکنالوجی ففتھ جنریشن میں داخل ہو چکی ہے جہاں صارفین تیز ترین سروسز استعمال کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ مستقبل میں اس میں مزید جدت آتی رہے گی۔
اسی طرح انٹرنیٹ کے مختلف ادوار میں ویب تھری یا ویب 3.0 انٹرنیٹ ترقی کا تیسرا دور ہے جو ابھی مکمل طور پر وجود میں نہیں آیا ہے لیکن اس پر گزشتہ کئی برسوں سے کام ہو رہا ہے۔
ویب تھری کو سمجھنے کے لیے پہلےویب 1 اور ویب 2 پر نظر ڈالتے ہیں۔ ویب 1 انٹرنیٹ کا وہ دور تھا جہاں معلومات کی ترسیل یک طرفہ تھی اور عام انسان اسے صرف پڑھ سکتا تھا۔
ویب2 ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے آنے والا وہ زمانہ تھا جب فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز وجود میں آئے اور معلومات کی ترسیل یا کمیونی کیشن دو طرفہ ہوئی۔ اس دور میں معاشی لین دین میں انسان کی جغرافیائی لوکیشن کیا ہے اس کا بھی عمل دخل ہے کیوں کہ یہاں اس کی لوکیشن ہی اس کی پراڈکٹ، خدمات یا معلومات کا معاوضہ متعین کرتی ہے۔
انٹرنیٹ کے 2.0 دور میں فیس بک، یو ٹیوب، انسٹاگرام اور ایمیزون جیسے پلیٹ فارمز اربوں ڈالرز کما کے اس دور اور ٹیکنالوجی کی صنعت کے دیو ہیکل بن چکے ہیں۔
ویب تھری کے بارے میں مفتاح اسماعیل سے سوال کرنے والے اٹلانٹک کاؤنسل کے جنوبی ایشیا سینٹر میں پاکستان انیشیئیٹو کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ویب تھری کی اصطلاح یا کانسیپٹ ابھی ارتقاء کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور غیر واضح یا مبہم ہے۔
ای-کامرس اور ٹیک جائنٹ ایمیزون کی مثال دیتے ہوئے عزیر سمجھاتے ہیں کہ یہ ایسا ہے کہ جیسے وہ نوے کی دہائی میں آپ کو بتائیں کہ ایمیزون مستقبل میں ویب سروس کی خدمات فراہم کرے گا، وہ whole foods خرید لے گا اور ایڈورٹائزنگ سے اربوں ڈالرز کمائے گا۔
اس طرح مستقبل میں ویب تھری کیا شکل اختیار کرے گا یہ ابھی واضح نہیں مگر تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
میٹاورس کانسیپٹ کوبھی ویب تھری دور کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے جہاں انسان ورچوئلی عام زندگی کی طرح ملاقات، خریداری کے ساتھ املاک خرید پائے گا جو 'فنجبل ٹوکنز' کی صورت میں اس کی ملکیت ہوں گی جس کی قدر بڑھ بھی سکتی ہے اور گھٹ بھی۔
عزیر یونس کہتے ہیں ویب تھری انٹرنیٹ کے ایک ایسے دور کا کانسیپٹ ہے جہاں انٹرنیٹ کسی مرکزی نظام کے تحت نہیں ہوگا۔
اسلام آباد میں ٹیکنالوجی کمپنی اوپٹیرا ڈیجیٹل کے بانی اور سربراہ عباس سلیم خان اس سے متعلق کہتے ہیں ویب تھری میں نظام کا کنٹرول بلاک چینز کے ذریعے چند ہاتھوں میں نہیں بلکہ کمیونٹی کے ہاتھوں میں ہوگا اس لیے یہاں جمع یا محفوظ رکھا جانے والا ڈیٹا اور ہر لین دین واضح اور شفاف ہوگا۔
ان کے مطابق ویب تھری میں معاشی برابری بھی نظر آتی ہے جو کہ بہت اہم ہے ۔ اب تک مغربی ممالک میں خدمات فراہم کرنے والے اور صارف دونوں کی زیادہ اہمیت رہی ہے لیکن مستقبل میں یہ تسلسل برقرار رہتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
عزیر یونس اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ویب 3 میں ڈیجیٹل شناخت،ای میلز حاصل کرنا، پیسے جمع کرنے کا نظام اور دیگر خدمات الگ الگ پلیٹ فارمز کی محتاج نہیں ہوں گی۔ جہاں صارف اور تخلیق کار یا خدمات فراہم کرنے والے کے درمیان کوئی تیسری پارٹی نہیں ہوگی۔
عباس سلیم خان اسے کچھ یوں سمجھاتے ہیں کہ اس وقت آپ پاکستانی روپے میں کماتے ہیں اور آپ کو دبئی اپنے رشتہ دار کو پیزا بھیجنا ہو تو اس میں بینکنگ گیٹ ویز کرنسی کی تبدیلی وغیرہ شامل ہے، تصور کریں یہی کام آپ اپنے ورچوئل والٹ سے چند لمحوں میں کریں۔ کرپٹو کرنسی میں آپ کے والٹ سے پیسے نکل کر سیدھا ریسٹورنٹ کے والٹ میں جائیں اور آپ کا کام ہو جائے۔ یعنی پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں موجود انسان امریکہ یورپ میں براہِ راست ٹرانسیکشنز کر پائیں گے۔
ماہرین اس طرزِ معاملات کے لیے بلاک چین، ڈی سینٹرلائزڈ نظام یا انٹرنیٹ تھری پوائنٹ زیرو کی اصلاح استعمال کرتے ہیں اور اس معیشت کو انسان کا مستقبل سمجھتے ہیں۔
بلاک چین، ڈی سینٹرالائزڈ نظام اور کرپٹو کرنسی پر مبنی انٹرنیٹ 3.0 پاکستان کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟
عزیر یونس کے مطابق اس وقت ویب تھری کے نظام میں سب سے بڑا موقع ٹیکنالوجی ٹیلنٹ کے لیے ہے جو عالمی ڈویلیپر کمیونٹی کا اب بھی حصہ ہیں اور اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
عزیر یونس کا کہنا ہے کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں کام کرنے والے ڈویلیپرز عالمی مارکیٹ کے مطابق معاوضہ پا رہے ہیں نا کہ ملکی حساب سے مگر چوں کہ اسٹیٹ بینک پاکستان کی جانب سے کوئی ریگولیٹری پالیسی موجود نہیں، یہ پیسہ قانونی طور پر کمانے والے بھی اسے حاصل کرنے کے لیے ہنڈی وغیرہ یا دوسرے ذرائع کا استعمال کرتے ہیں اور ایک طرح سے منی لانڈررز کے ضمرے میں آتے ہیں۔
SEE ALSO: 'میٹاورس' صارفین کے لیے ورچوئل زندگی کا نیا تصورکیا واقعی ہم معیشت کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں؟ کیا موجودہ کرنسی، موجودہ بینکاری نظام سب فرسودہ ہوجائے گا؟
اس کا جواب دیتے ہوئے عزیر یونس کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سب بیکار ہے اور اس کا کوئی مستقبل نہیں اور ایسا ہو بھی سکتا ہے مگر ہمیں آنے والے کل کے لیے تیار رہنا ہے۔
عزیر کہتے ہیں ماضی قریب میں جب انٹرنیٹ آچکا تھا ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے لیے ذریعے معاشی لین دین بھی ہو سکے گا۔ مگر انٹرنیٹ سے انہی معاشروں نے فائدہ اٹھایا جنہوں نے اس میں تحقیق اور کوشش کرنے والوں کو نہیں روکا۔
اسی لیے ان کی رائے میں پاکستانی حکومت کو اس خیال کو یکسر مسترد کرنے کے بجائے ضروری پالیسی بنانا چاہیے اور ٹیکنالوجی اور معاشی جدت کو نظر انداز کرنے کے بجائے مستقبل کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دے کر دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔