"جب جاوید اقبال نے روزنامہ جنگ کے دفتر میں خود کو سرنڈر کیا، وہ 31 دسمبر 1999 کی رات تھی۔ اس نے بہت ہی سوچ سمجھ کر وہ رات چنی۔ کیوں کہ یکم جنوری کو نئی صدی کے پہلے دن ساری دنیا کے اخباروں میں 'بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیریل کلر' کی ہیڈ لائنز لگیں اور جاوید اقبال نے ایک رات میں اپنے آپ کو ثابت کر دیا۔"
یہ نفسیاتی معالج ڈاکٹر خالد سہیل کی رائے ہے جنھیں دسمبر 1999 میں 100 بچوں کے قتل کا دعویٰ کرنے والے جاوید اقبال کا جیل کی کوٹھڑی میں نفسیاتی معائنہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ڈاکٹر خالد نے جاوید اقبال کی گرفتاری کے بعد اس سے کئی ملاقاتیں کیں اور اس کی ذہنی حالت اور اس کے سفاکانہ اقدام کی وجوہات سے متعلق دو کتابیں بھی تحریر کیں۔
لاہور کے علاقے راوی روڈ کا رہائشی جاوید اقبال ایک بے ضرر شخص دکھائی دیتے تھے۔ تاہم 31 دسمبر 1999 کو اچانک اس نے روزنامہ جنگ کو لکھے گئے خط میں 100 بچوں کو قتل کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے تیزاب میں ڈالنے کا دعوی کیا تھا۔ خط کے ساتھ درجنوں بچوں کی تصاویر بھی تھیں۔ جن کے پیچھے ان کے نام اور پتے درج تھے۔
جاوید اقبال کا پولیس کو لکھا گیا خط
جاوید اقبال سے تفتیش کرنے والے سابق ڈی ایس پی پولیس مسعود عزیز خان کے مطابق جاوید اقبال نے ڈی آئی جی لاہور کو ایک خط لکھا تھا جسے انہوں نے ایس پی سی آئی اے کو بھیجا اور معاملے کی تحقیقات کا کہا۔
مسعود عزیز کا کہنا تھا کہ پولیس نے تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی)کو بھیجی جس میں جاوید اقبال کو ایک نارمل شخص قرار دیا گیا تھا۔مسعود عزیز کے بقول جب جاوید اقبال کو چھوڑ دیا گیا تو اس نے وہی خط روزنامہ جنگ کو ارسال کر دیا۔
خط روزنامہ جنگ پہنچ گیا
روزنامہ جنگ کے اس وقت کے ایڈیٹر کرائمز جمیل چشتی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جاوید اقبال کی طرف سے ملنے والا لفافہ وزنی تھا۔ جب انہوں نے اسے کھولا تو اس میں خط کے ساتھ 75 بچوں کی تصویریں تھیں۔ خط لکھنے والے شخص نے اقرار کیا تھا اس نے 100 بچوں کو تیزاب میں ڈال کر مار دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمیل چشتی کے مطابق خط ملنے کے بعد وہ اس میں درج پتے '13 بی راوی روڈ' پہنچے۔ یہ ایک تنگ گلی میں چھوٹا سا گھر تھا۔ وہ دیوار پھلانگ کر جاوید اقبال کے گھر میں داخل ہوئے جہاں دو بڑی بڑی بوریاں پڑی ہوئی تھیں جن پر لکھا تھا سو بچوں کے کپڑےاور سو جوتے۔
انہو ں نے بتایا کہ جاوید اقبال کے خط میں لکھا تھا کہ اگر آپ اسٹور کے اندر جائیں تو وہاں آپ کو ڈرم میں بچوں کے جسم کے اعضا ملیں گے۔جمیل چشتی کے بقول جب انہوں نے ایک ڈرم کا ڈھکن اٹھایا تو ان کے ہاتھ جل گئے اور اس سے تعفن اٹھنے لگا۔
روزنامہ جنگ کے سابق ایڈیٹر کرائمز نے بتایا کہ اگلے روز ان کی خبر اخبار میں چھپنے کے بعد پولیس سرگرم ہو گئی اور انہیں پتا چلا کہ پولیس نے جاوید اقبال کے تمام رشتے داروں کو حراست میں لے لیا ہے۔
بچوں کو دھیان بٹا کر جان لے لیتا تھا
سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز کے مطابق جاوید اقبال نے بچوں کے لیے بے شمار کپڑے خرید کر گھر میں رکھے ہوئے تھے۔ وہ بچوں کو گھر لاتا، انہیں ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتا اور جب بچے ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہو جاتے تو وہ انہیں بہلا پھسلا کر دوسرے کپڑے پہننے کا کہتا، انہیں کھانا کھلاتا اور ان سے زیادتی بھی کرتا۔
مسعود عزیز نے بتایا کہ جب بچے ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوتے تو وہ ان کے پیچھے بیٹھ جاتا اور زنجیر کی مدد سے ان کا گلا گھونٹ دیتا۔
جمیل چشتی کے مطابق ایک بار جاوید اقبال مالش کا کام کرنے والے دو بچوں کو گھر لایا اور ان کے ساتھ جب اس نے زیادتی کی تو دونوں نوجوان اسے شدید زخمی کر کے فرار ہو گئے۔ بعدازاں جاوید اقبال کئی ماہ تک لاہور کے جنرل اسپتال میں زیرِ علاج رہا۔
مسعود عزیز نے بتایا کہ جاوید اقبال کے زخمی ہونے کا اس کی ماں کو شدید صدمہ پہنچا جو اپنے دوسرے بیٹے کے گھر غازی آباد میں رہتی تھیں اور وہ اسی صدمے میں دم توڑ گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمیل چشتی بتاتے ہیں ماں کی موت کے بعد جاوید اقبال نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی ماں کی موت کا بدلہ 100 بچوں کی ماوؤں کو رلا کر لے گا۔
لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں جاوید اقبال کا ذہنی معائنہ کرنے والے ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں ماں کی موت کے بعد جاوید اقبال نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اس نے اب مرنا تو ہے، لہذا مرنے سے پہلے وہ ایسا کام کرنا چاہتا تھا کہ جس کےبعد اس کا نام تاریخ کی کتابوں میں رہے۔
سو بچوں کے قتل کا دعوے دار جاوید اقبال روزنامہ جنگ کو خط لکھنے اور پولیس کےحرکت میں آنے کے بعد غائب ہو گیا اور پولیس کے جگہ جگہ چھاپوں کے باوجود اسے گرفتار نہ کیا جا سکا۔
ڈیفنس سرٹیفیکیٹس اور لاڈلے ساجد کی گرفتاری
مسعود عزیز کے مطابق تحقیقات کے دوران جاوید اقبال کی بہن نے ملزم کے پاس دس، دس ہزار کے تین ڈیفینس سرٹیفیکیٹس کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا جنہیں وہ کیش کرانے متعقلہ بینک کی کسی بھی شاخ میں جا سکتا تھا۔ لہذا مسعود عزیز کے بقول اس بینک کی تمام شاخوں کو مطلع کر دیا گیا کہ اگر جاوید اقبال ڈیفنس سرٹیفیکیٹس کیش کرانے آئے تو پولیس کو مطلع کیا جائے۔
مسعود عزیز کا کہنا تھا کہ جب جاوید کے پاس پیسے ختم ہوئے تو وہ تین بچوں کے ہمراہ جہلم کے علاقے سرائے عالم گیر میں قائم بینک برانچ میں ڈیفنس سرٹیفیکیٹس کیش کرانے پہنچا اور اس نے اپنے ساتھی ساجد کو کیش کرانے بینک میں بھیجا۔
SEE ALSO: پاکستان میں ریپ کے مجرموں کو 'نامرد' کرنے کا قانون کتنا مؤثر ہو گا؟پولیس کی کارروائی میں ساجد گرفتار ہو گیا لیکن جاوید اقبال وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
جمیل چشتی کا کہنا تھا کہ ساجد نے گرفتاری کے بعد انہیں بتایا تھا کہ جاوید اقبال یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میڈیا کو ایک انٹرویو دینے کے بعد سائیا نائٹ (زہر) کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے گا۔
جمیل چشتی کا کہنا تھا کہ جاوید اقبال کے روزنامہ جنگ کے دفتر پہنچنے کے بعد غیر ملکی میڈیا دفتر کے باہر تھا اور پولیس کے علاوہ فوج بھی جاوید اقبال کی گرفتاری کے لیے پہنچ چکی تھی۔
'جاوید اقبال کو فیصلہ سن کر بھی کوئی پشیمانی نہیں تھی'
لاہور کی عدالت میں جاوید اقبال پر مقدمہ چلایا گیا اور جج، جسٹس اللہ بخش رانجھا نے جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سیکشن 302 اے پی سی سی کے مطابق سزائے موت دینے کا حکم دیا۔ سزا کے علاوہ مجرم کی لاش کے 100 ٹکڑوں کو اسی تیزاب کے فارمولے میں ڈالنے کی ہدایت کی۔
سابق ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اللہ بخش رانجھا کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ جس وقت جاوید اقبال کا مقدمہ چلا، اس وقت ملک کی فضا بڑی مختلف تھی۔ ملک میں فوجی حکومت تھی اور اس وقت کی اخباریں جاوید اقبال کی خبروں سے متعلق بھری پڑی تھیں۔
اللہ بخش رانجھا کے مطابق 100 سے زائد گواہوں کے بیانات لے کر کم سے کم وقت میں اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا لیکن فیصلے کے وقت جاوید اقبال کو فیصلہ سن کر بھی کوئی پشیمانی نہیں تھی۔
صحافی جمیل چشتی کے مطابق جس وقت عدالت نے فیصلہ سنایا تو اس وقت وہ کمرۂ عدالت میں موجود تھے اور انہوں نے جاوید اقبال کا چہرہ دیکھا جس پر خوف کے بجائے اطمینان تھا۔
جمیل چشتی کا کہنا تھا کہ فیصلہ سننے کے بعد جاوید اقبال ان کے پاس سے گزرا اور انہیں گلے ملا اور کہا کہ "میں آپ کا بہت بہت مشکور ہوں۔"
ڈاکٹر سہیل خالد کا کہنا تھا کہ جب جاوید اقبال کو سزائے موت ہو گئی تو وہ اس سے جیل میں ملے اور جن چیزوں نے انہیں حیران کیا، پہلی بات تو یہ کہ جاوید اقبال زمین پر گدے پر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں سبز رنگ کی تسبیح تھی۔
عدالت سے موت کی سزا پانے کے بعد جاوید اقبال اپنے ساتھی ساجد کے ہمراہ (علیحدہ علیحدہ کوٹھریوں) میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید تھا۔ لیکن ایک دن دونوں کی پر اسرار موت واقع ہو گئی۔
جمیل چشتی کا جاوید اقبال اور ساجد کی موت پر کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں بتایا کہ دونوں نے اوپر اوڑھنے والی چادریں، جنگلے سے باندھ کر اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔ جو کہ ان کے بقول ممکن ہی نہیں ہے۔
ڈاکٹر سہیل اختر کے مطابق جاوید اقبال کی ذہنی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ خود کشی کرتا۔ ان کے بقول جس کمرے میں جاوید اقبال قید تھا اس کی چھت 20 سے 25 فٹ اونچی تھی اور وہاں پھندا لگا کر خودکشی کرنا ممکن نہیں تھا۔