پاکستان میں وفاقی کابینہ نے زیادتی کے مجرموں کے لیے سخت سزاؤں پر مشتمل سفارشات کی منظوری دی ہے جس کے تحت ریپ کے مجرموں کو دواؤں کے ذریعے نامرد کرنے کی سفارش بھی شامل ہے۔ وفاقی وزرا کا کہنا ہے مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کے اس عمل 'کیمیکل کیسٹریشن' مخصوص مدت یا زندگی بھر کے لیے ہو سکے گی۔
دنیا کے تین ممالک میں مجرموں کو نامرد کرنے کے قوانین موجود ہیں۔
قانونی اور آئینی ماہرین کی نظر میں قوانین سے پہلے پولیس اور عدالتی نظام کو بہتر کرنا ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ نے ریپ کے مجرموں کو قوت مردمی سے محروم کرنے کے لیے قانون میں ترمیم اور ریپ آرڈیننس 2020 کی اصولی منظوری دے دی ہے۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، زنا بالجبر کے مجرموں کے لیے سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں جن میں ریپ کے مجرموں کو نامرد کرنے کا قانون بھی شامل ہے۔
اُن کے بقول کیمیکل کیسٹریشن مخصوص مدت یا زندگی بھر کے لیے ہو سکے گی۔
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کئی ممالک میں مجرموں کو نامرد بنائے جانے کے قوانین موجود ہیں۔ ریپ کے مجرموں کا ڈیٹا بیس بھی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
فروغ نسیم کے مطابق 'سیکس اوفینڈرز رجسٹری نادرا کے ریکارڈ کا حصہ ہو گی۔ مجرم کو 10 سے 25 برس قید کے علاوہ عمر قید اور موت کی سزائیں بھی دی جا سکیں گی۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے سندھ میں ماں اور بیٹی کے ریپ کے واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور وزیر قانون فروغ نسیم سے ایک ایسا جامع آرڈیننس تیار کرنے کا کہا جس میں ملزم کے خلاف تیز ترین ٹرائل، ریپ کی جامع تعریف اور سزا یافتہ ریپسٹس کے لیے سخت سزائیں شامل ہیں۔
شبلی فراز نے کہا کہ حکومت نے 'اینٹی ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 اور پاکستان پینل کوڈ (ترمیم) آرڈیننس 2020 کو ایک 'بڑا فیصلہ' قرار دیا اور کہا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریپ کی تعریف تبدیل کی گئی ہے جس میں 'ٹرانس جینڈر' اور 'گینگ ریپ' کی اصطلاح کو شامل کیا گیا ہے۔
پاکستان انسانی حقوق کمشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن زیادتی کے ملزم کے لیے پھانسی کی سزا کی حمایت نہیں کرتے، تاہم وہ نامرد بنانے کے قانون کے حق میں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پھانسی کی سزا کی وجہ سے مجرم دو سے تین منٹ میں اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے جب کہ نامرد کرنا ایسی سزا ہو گی جسے وہ ساری زندگی بھگتے گا۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ "میں نے ہی اس حوالے سے سب سے پہلے تجویز ایچ آر سی پی میں دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ مجرم اس احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ انہیں یہ احساس دلانا ضروری ہے، موت کی سزا دنیا کے بیشتر ممالک میں نہیں ہے اور اسے قبول نہیں کیا جاتا، لہذا اس کی غیرموجودگی میں اس سزا سے مجرموں کو مثال بنایا جا سکتا ہے۔"
'قانون بہت ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا'
قانونی ماہر ضیا اعوان اس سزا سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ قانون تو بہت بنتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے لیے عدالتی اور پولیس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ضیا اعوان کہتے ہیں کہ اس وقت ریپ اور ایسے سنگین جرائم کے لیے پاکستان میں 20 کے قریب قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ "میں نے ایک ہزار لوگوں کو ان قوانین کے حوالے سے ایک تربیت دی، جس میں ان قوانین کی تمام معلومات موجود تھیں، افسوس ناک بات یہ تھی کہ ان میں پولیس افسران، ججز، وکلا اور دیگر انسانی حقوق کے لوگ موجود تھے لیکن کسی کو بھی ان قوانین سے آگاہی نہیں تھی۔
ضیا اعوان نے کہا کہ "آپ کچھ بھی کر لیں لیکن ان جرائم کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک آپ کا کریمنل جسٹس سسٹم درست نہ ہو۔ آپ کتنے ہی قانون بنا لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔"
اُن کے بقول معاشرے میں ریپ کلچر کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ سماجی رہنما اور دیگر لوگ اس بارے میں اپنا کردار ادا کریں۔ بد قسمتی سے یہاں ریپ کے شکار افراد کو مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ اس سوچ اور اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
کن ممالک میں نامرد بنانے کا قانون موجود ہے؟
پاکستان سے قبل دنیا کے تین ممالک میں کیسٹریشن کا قانون موجود ہے، ان میں جمہوریہ چیک، انڈونیشیا اور یوکرین شامل ہیں۔
انڈونیشیا میں اکتوبر 2016 میں قانون پاس کیا گیا، جس کے بعد کیمیائی کیسٹریشن کے عمل کی اجازت دی گئی تھی۔ اس قانون کے تحت 2019 میں جس مجرم کو سزا سنائی گئی، اس کا کہنا تھا کہ اسے موت کی سزا دی جائے یا پھر قید کی مدت بڑھا دی جائے۔
جمہوریہ چیک میں 1966 میں یہ قانون بنایا گیا۔ اس قانون کے تحت سال 2000 سے 2011 کے درمیان 85 افراد کو کیسٹریشن کی سزائیں دی گئیں۔
یوکرین میں جولائی 2019 میں یہ قانون کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے افراد کے خلاف بنایا گیا، جس میں 18 سے 65 سال کے مجرموں کو یہ سزا دی جا سکتی ہے۔
نائیجیریا میں بھی 14 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے افراد کے خلاف یہ قانون بنایا گیا ہے، تاہم اب تک ریاستی گورنر کے دستخط نہ ہونے سے یہ قانون رائج نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں متوقع ترمیمی آرڈنینس کے تحت ریپ کا نشانہ بننے والے بچوں، خواتین اور اُن کے ساتھ گواہان کا تخفظ بھی کیا جائے گا۔
خواتین پولیسنگ، فاسٹ ٹریک مقدمات اور گواہوں کا تحفظ مسودے کا بنیادی حصہ ہے، جس کے منظور ہونے پر متاثرہ خواتین یا بچے بلا خوف و خطر اپنی شکایات درج کرا سکیں گے۔
مسودے میں یہ بھی شامل ہے کہ متاثرہ خواتین و بچوں کی شناخت کے تحفط کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہونے کے باعث حکومت قانون کو آرڈیننس کی صورت میں جاری کرے گی۔