|
شام میں جاری 13 سالہ خانہ جنگی میں اچانک باغی فورسز نے بھرپور قوت کے ساتھ پیش قدمی کی ہے۔ خاص طور پر ملک کے سب سے بڑے شہر حلب پر ان کی چڑھائی اور بشار الاسد حکومت کی فورسز کی پسپائی کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔
باغیوں نے حالیہ برسوں میں بھرپور حملے کیے ہیں جس کے باعث پیدا ہونے والے عدم استحکام کے اثرات صرف شام تک محدود نہیں ہیں۔
بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری خانہ جنگ میں 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اپوزیشن نے حلب پر چڑھائی کی ہے۔ اس وقت بشار الاسد کی مدد کے لیے روس میدان میں اترا تھا اور اس نے فضائی حملے کر کے حلب پر باغیوں کے حملے کو ناکام بنایا تھا۔
روس کی مداخلت، ایران اور اس کی اتحادی حزب اللہ اور دیگر گروپس کی مدد ہی سے اسد شام کے 70 فی صد علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔
تاہم شام میں زور پکڑتی حالیہ جھڑپیں مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسے وقت نئے محاذ گرم ہونے کا اشارہ ہیں جب امریکہ کا قریب ترین اتحادی اسرائیل غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ جیسے ایران کے اتحادیوں سے مصروفِ جنگ ہے۔
شام میں امریکہ کے آخری سفیر رابرٹ فورڈ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے شام میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر کچھ ماہ سے جاری حملوں اور بعد ازاں لبنان میں جنگ بندی وہ عوامل ہیں جنھوں نے شامی باغیوں کو پیش قدمی کا موقع فراہم کیا ہے۔
اس کی مزید تفصیل سمجھنے کے لیے کچھ اہم پہلوؤں کو جاننا ضروری ہے۔
حلب اہم کیوں؟
بشار الاسد حکومت کی مخالف فورسز گزشتہ 13 برس سے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے لڑ رہی ہیں اور اب تک اس تنازع میں اندازاً پانچ لاکھ لوگ مارے گئے ہیں جب کہ 68 لاکھ سے زائد شامی ملک چھوڑ چکے ہیں۔
شام سے پناہ گزینوں کے بہاؤ نے یورپ کے سیاسی نقشے میں کئی تبدیلیاں کی ہیں اور یہاں انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں اور تارکینِ وطن کی مخالفت کرنے والی آوازوں کو تقویت دی ہے۔
شام کا 30 فی صد علاقہ بشار الاسد کی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے اور یہ مختلف گروپس اور غیر ملکی افواج کے پاس ہے۔
حلب سے بہت دور شمال مشرقی شام میں امریکہ کے 900 فوجی اہل کار موجود ہیں جنھیں داعش کے مقابلے کے لیے وہاں تعینات کیا گیا تھا۔
امریکہ اور اسرائیل گاہے بہ گاہے شامی حکومتی فورسز اور ایران کے اتحادی ملیشیا گروپس کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
شام میں ترکیہ کی فوجیں بھی ہیں اور حلب کی جانب بڑھنے والے حکومت مخالف گروپس بھی اس کے اتحادی ہیں۔
SEE ALSO: حلب پر عسکریت پسند قابض؛ شامی فوج کی مدد کے لیے عراق سے جنگجوؤں کی آمدشام کے امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار چارلس لسٹر کے مطابق گزشتہ برسوں میں باہم لڑنے والے فریقوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ تاہم اگر شامی حکومت کی فورسز کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں تو موجودہ جھڑپوں کی وجہ سے آنے والی تبدیلیاں انتہائی غیر معمولی اور بازی پلٹ دینے والی ہو سکتی ہیں۔
لسٹر کے مطابق ان جھڑپوں سے داعش کو ایک مرتبہ پھر شام میں بھرپور قوت کے ساتھ سر اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔
سابق سفیر فورڈ کے مطابق حلب میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے عدم استحکام کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے خاص طور پر اگر روس اور ترکیہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میدان میں اتر جاتے ہیں تو میدان میں بھی ایک دوسرے کے سامنے آ سکتے ہیں۔
حملے کی قیادت کون کر رہا ہے؟
شام میں باغیوں کی پیش قدمی کی قیادت ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نامی تنظیم کر رہی ہے جسے بہت پہلے ہی امریکہ اور اقوامِ متحدہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
اس تنظیم کے سربراہ ابو محمد الجولانی شام میں جاری جنگ کے پہلے ہی ماہ 2011 میں القاعدہ کی شامی شاخ کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ شامی اپوزیشن القاعدہ کے اس جنگ میں ملوث ہونے سے ناخوش تھی کیوں کہ وہ اسد کی جابر حکومت کے خلاف لڑائی میں انتہا پسند عناصر کو شامل نہیں کرنا چاہتی تھی۔
جولانی اور ان کے گروپ نے ابتدا میں کئی ہلاکت خیز دھماکوں کی ذمے داری قبول کی اور مغربی افواج کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا تھا۔ ساتھ ہی اس گروپ نے اقلیتوں کی جائیداد اور املاک پر قبضہ کیا اور خواتین پر خاص ڈریس کوڈ نافذ کرنے کے لیے مذہبی پولیس بھی تشکیل دی۔
محقق ایرون زیلین کے مطابق جولانی اور ایچ ٹی ایس حالیہ بروسوں میں ایک بار پھر منظم ہوئے ہیں اور انہوں نے مسلح کارروائیوں کے ساتھ ساتھ اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں سول انتظامیہ کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔
SEE ALSO: حلب پر قبضے کے بعد باغیوں کی پیش قدمی جاری، روس اور شام کے ادلب پر فضائی حملےسال 2016 میں جولانی نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنے علاقوں میں سرگرم دیگر مذہبی گروپس کے خلاف بھی کارروائیاں کیں۔
جولانی نے خود کو دیگر مذاہب کے محافظ کے طور پر بھی پیش کرنا شروع کیا۔ گزشتہ برس ادلب میں کئی برسوں بعد مسیحیوں کو اپنے اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
زیلین کا کہنا ہے کہ 2018 میں ٹرمپ حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ وہ جولانی کے گروپ کو نشانہ نہیں بنائے گی۔ تاہم ایچ ٹی ایس نے بعض مطلوبہ مسلح گروپس کو سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی اور کم از کم 2022 کے ایک واقعے میں ایچ ٹی ایس نے امریکی اسپیشل فورسز کو نشانہ بنایا تھا۔
حلب میں جنگ کی تاریخ کیا ہے؟
حلب ہزاروں برس سے بڑی سلطنتوں کے لیے تجارتی راستہ رہا ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے کاروباری اور ثقافتی مراکز میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس کی آبادی لگ بھگ 23 لاکھ ہے۔ 2012 میں اس کا مشرقی علاقہ باغیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا جسے وہ اپنی مسلح جدوجہد کا اہم ترین سنگِ میل قرار دیتے تھے۔
شامی حکومت نے 2016 میں روس کے فضائی حملوں کی مدد سے شہر کا محاصرہ کیا اور شہر میں موجود باغیوں کی رسد کاٹ دی اور انہیں کمک بھی نہیں پہنچنے دی۔ اس محاصرے کی وجہ سے باغیوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور حلب اسد حکومت کے پاس واپس چلا گیا۔
SEE ALSO: ترکیہ کے صدر کی ایک دہائی بعد شام سے ایک بار پھر تعلقات بحالی کی خواہش کا اظہاراُس وقت جنگ میں روسی فوج کی مداخلت فیصلہ کُن ثابت ہوئی اور اسی کی وجہ سے یہ شہر اسد حکومت کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔
ایک آزاد مانیٹرنگ گروپ کے مطابق رواں برس اسرائیل نے حلب پر حملے کرکے وہاں دیگر اہداف کے علاوہ حزب اللہ کے اسلحہ ڈپوز کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل حلب اور حکومت کے زیرِ انتظام دیگر حملوں کی ذمے داری کم ہی قبول کرتا ہے۔
اس تحریر میں شامل معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔