بحرِ اوقیانوس میں لاپتا ہونے والی ٹائیٹن نامی آب دوز کی تلاش کا عمل چوتھے روز بھی جاری ہے لیکن آب دوز میں چند گھنٹوں کی ہی آکسیجن باقی رہ گئی ہے۔
لاپتا آب دوز میں لگ بھگ 96 گھنٹوں کی آکسیجن موجود تھی جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے وقت کے مطابق دن کےچار بجے تک یہ آکسیجن ختم ہو جائے گی۔
ٹائیٹن کی تلاش کے لیے ماہرین سرگرم ہیں جنہیں طیاروں، بحری جہازوں، پانی کی گہرائیوں میں جانے والے ڈرونز اور جدید ترین آلات کی مدد حاصل ہے۔
آب دوز کی تلاش کےدوران بدھ کو کینیڈا کے ایک جہاز نے سمندر کی گہرائی میں آواز کا کھوج لگایا تھا جس سے حکام کو امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ آواز آب دوز سے موصول ہونے والے سگنل ہو سکتے ہیں۔
ان آوازوں کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ ایک گونج جیسی آواز تھی جیسے کوئی چیز کسی سے ٹکرائی ہو۔یہ آواز تقریباً ہر 30 منٹ کے بعد سنی گئی تھی۔
تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سگنل یا آوازیں ممکنہ طور پر اس لاپتا آب دوز کی نہیں ہوں گے۔
آب دوز کی تلاش کہاں ہو رہی ہے؟
ٹائیٹن کی تلاش میں مصروف ٹیمیں اب تک 26 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ سمندر کو چھان چکی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آب دوز کے مقام کی نشاندہی ہو بھی جائے تو بھی تقریباً 3800 میٹر کی گہرائی سے اسے نکالنا انتہائی دشوار کام ہے کیوں کہ یہ کام آب دوز میں آکسیجن کی گھٹتی ہوئی مقدار کے پیش نظر محدود وقت میں انجام نہیں دیا جا سکتا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ چوں کہ آب دوز کے عملے کا زمین سے رابطہ منقطع ہے اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں کہ وہ آواز پیدا کر کے تلاش کرنے والوں کو اپنی موجودگی کی اطلاع دیں۔ آواز پیدا کرنے کے لیے شاید وہ کوئی چیز آب دوز کی دیوار سے ٹکرارہے ہوں گے تاکہ آواز کا کھوج لگانے والے آلات کو ان کے مقام کا علم ہو سکے۔
تلاش میں کون کون سے ممالک متحرک ہیں؟
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق ٹائیٹن کی تلاش میں امریکہ کے کوسٹ گارڈز کو کینیڈا کے حکام کی معاونت حاصل ہے جب کہ فرانس بھی اس آپریشن میں مدد کے لیے اپنی روبوٹ آب دوز بھیج چکا ہے۔
امریکہ اور کینیڈا کے بحری جہازوں اور کشتیوں کے ساتھ ساتھ ہوائی جہاز بھی تلاش کے کام میں مصروف ہیں۔
امریکی کوسٹ گارڈز کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پانچ بحری جہاز اور دو ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی گاڑیاں تلاش کے کام میں مصروف ہیں۔
امریکہ کے کوسٹ گارڈز نے ریموٹ سے آپریٹ ہونے والی گاڑی کو سمندر میں اس مقام پر اتارا ہے جہاں سے آوازیں موصول ہوئی تھیں۔ تاہم اس دوران بھی لاپتا آب دوز ٹائیٹن کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا تھا۔
امدادی مشن میں امید موجود
امریکی کوسٹ گاڑد کے کیپٹن جمی فریڈیک کہتے ہیں جب آپ کسی امداد ی مشن پر ہوں تو ایک امید ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ البتہ زیرِ سمندر آوازوں کے ذریعے کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا کہ یہ کس چیز کی آوازیں ہیں۔
دوسری جانب فرانس نے لاپتا آب دوز کی تلاش کے لیے اپنی روبوٹ آب دوز ’ویکٹر 6000‘ بھی روانہ کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یہ روبوٹ آب دوز لگ بھگ 20 ہزار فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے جب کہ لاپتا آب دوز کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ سمندر میں 12 ہزار سے 13 ہزار فٹ کی گہرائی میں لاپتا ہوئی ہے۔
تمام حفاظتی اقدامات کا دعویٰ
لاپتا آب دوز ٹائیٹن کو سطح سمندر سے سپورٹ فراہم کرنے والے جہاز کی مالک کمپنی پولر پرنس کے مالک شان لیٹ کا کہنا ہے کہ ٹائیٹن کوحفاظتی اقدامات کے ساتھ آپریٹ کیا جاتا تھا۔ البتہ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ٹائیٹن کا رابطہ مرکزی کنٹرول روم سے کیسے منقطع ہوا۔
شان لیت نے مزید کہا کہ آب دوز کی روانگی کے وقت تمام ضوابط پر عمل کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آب دوز میں اب بھی زندہ رہنے کے امکانات موجود ہیں۔ ان کے بقول جب تک آخری امید موجود ہے اس آب دوز کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔
آب دوز میں پانچ افراد سوار
ٹائیٹن میں پانچ افراد پھنسے ہوئے ہیں جن میں دو پاکستانی بھی ہیں۔جن کی شناخت شہزادہ داؤد اور ان کے جوان بیٹے سلیمان داؤد کے طور پر کی گئی ہے۔ ان کا تعلق پاکستان کے ایک نمایاں کاروباری گروپ 'داؤد ہرکولیس کارپوریشن' سے ہے۔
باقی تین مسافروں میں برطانوی بزنس مین ہیمش ہارڈنگ ، ٹائٹینک پر تحقیق کرنے والے ایک فرانسیسی ماہر پال ہنری نارگیولٹ اور پانچویں آب دوز کے پائلٹ اسٹاکن رش ہیں جو سمندری مہم جوئی کے لیے خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے بانی اور سربراہ بھی ہیں۔
SEE ALSO: کیا ٹائیٹن زیرِ آب مہم جوئی کے لیے موزوں نہیں تھا؟لاپتا آب دوز اور ٹائی ٹینک
امریکہ کی ایک نجی کمپنی ’اوشن گیٹ‘ لاپتا ہوجانے والی 22 فٹ طویل آب دوز ٹائیٹن کے ذریعے سمندر میں ڈوب جانے والے جہاز ٹائی ٹینک کے آثار دکھانے کے لیے ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی گہرائی میں لے کر جاتی تھی۔ اس میں ایک فرد کا کرایہ ڈھائی لاکھ ڈالرز وصول کیا جاتا تھا۔
امریکی نشریاتی ادارے ’این بی سی نیوز‘ کے مطابق اس کمپنی نے 2021 میں سمندر کی گہرائی میں سیاحوں کو لے جانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک تیسری بار ٹائیٹن کے ذریعے لوگوں کو زیرِسمندر لےجایا گیا تھا۔
ٹائی ٹینک برطانیہ کا ایک جہاز تھا جو کہ 1912 میں بحرِ اوقیانوس میں امریکہ کے ساحل سے ساڑھے چودہ سو کلو میٹر کے فاصلے پر غرقاب ہو گیا تھا۔ اس جہاز میں سوار 1500 مسافر ہلاک ہوئے تھے۔
ٹائیٹن پر سوالات
لاپتا ہونے والی آب دوز کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے پانچ برس قبل 2018 میں ایک سیمینار میں سوالات بھی اٹھائے گئے تھے۔
بعد ازاں ٹائیٹن آب دوز چلانے والی کمپنی اوشن گیٹ کے میرین آپریشنز کے سابق سربراہ ڈیوڈ لوکریج نے ایک کیس دائر کیا تھا۔
SEE ALSO: 'ممکن ہے ٹائٹن ، ٹائیٹینک کے ملبے میں الجھ گئی ہو'اس کیس میں ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں نوکری سے اس لیے نکالا گیا کیوں انہوں نے آب دوز کے حفاظتی اقدامات پر خدشات ظاہر کیے تھے جب کہ ان کے خیال میں سمندر کی زیادہ گہرائی میں یہ آب دوز کار آمد نہیں ہوگی۔
دوسری جانب اوشن گیٹ نے ڈیوڈ لوکریج کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا کہ لوکریج نے کمپنی کے چیف انجینئر کی تصدیق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور کمپنی کی خفیہ معلومات افشا کی تھیں۔
نومبر 2018 میں دونوں میں تصفیہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں جانب سے کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔