ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی کی نئی ایپ 'لیمن 8' کیا ہے؟

امریکہ میں جہاں قانون ساز اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا چین کی ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر ملک بھر میں پابندی لگادی جائے وہیں اسی کی پیرنٹ کمپنی کی حال ہی میں متعارف کردہ ایک نئی ایپ تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔

ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس کی نئی ایپ کا نام 'لیمن 8' ہے جسے مختصر عرصے میں لاکھوں امریکی ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق چینی کمپنی بائٹ ڈانس اپنے توسیعی منصوبوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن ٹک ٹاک کی طرح اس کی نئی ایپ کو بھی امریکہ میں جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ٹک ٹاک کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چین کی حکومت امریکی صارفین کا ڈیٹا حوالے کرنے کے لیے بائٹ ڈانس پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔تاہم ٹک ٹاک کے حکام امریکی قانون سازوں کو یہ یقین دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ وہ صارف کا ڈیٹا محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

لیمن 8 ہے کیا؟

لیمن 8 تصاویر پر مبنی ایک ایپلی کیشن ہے جو انسٹاگرام اور پن ٹرسٹ سے ملتی جلتی ہے اور اس پر ٹک ٹاک کی طرح کی ویڈیوز بھی شو ہوتی ہیں۔

لیمن 8 کی مین فیڈ میں دو طرح کے فیچرز موجود ہیں جس میں ایک "فالوئنگ" کا سیکشن ہے جہاں صارفین ان کانٹینٹ کری ایٹر کا کانٹینٹ دیکھ سکتے ہیں جنہیں وہ فالو کر رہے ہیں۔ دوسرا سیکشن 'فور یو' کا ہے جہاں دیگر پوسٹس موجود ہوتی ہیں۔

اس ایپلی کیشن میں ایسا آپشن بھی موجود ہے جس میں مختلف کیٹیگریز جیسے فیشن، بیوٹی اور فوڈ وغیرہ کا کانٹینٹ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس کی طرح لیمن 8 بھی صارف کے بنیادی ڈیٹا کسی رسائی طلب کرتا ہےجیسے آئی پی ایڈریس، براؤزنگ ہسٹری، ڈیوائس آئیڈینٹی فائر اور دیگر معلومات۔

SEE ALSO: بچوں کے ڈیٹا کا غلط استعمال: برطانیہ نے ٹک ٹاک پر ڈیڑھ کروڑ ڈالرجرمانہ کر دیا

ایپل اور گوگل پلے دونوں ایپ اسٹورز پر اس ایپلی کیشن کی مالک سنگاپور سے تعلق رکھنے والی ہیلیوفیلیا پرائیویٹ لمیٹڈ لسٹڈ ہے۔ اس کمپنی کا اور بائٹ ڈانس اور ٹک ٹاک کا پتا ایک ہی ہے۔

یہ ایپ کتنی مقبول ہے؟

لیمن 8 کو پہلی مرتبہ سال 2020 میں ایشیائی مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا تھا۔

ایپ کا جائزہ لینے والی کمپنی 'ڈیٹا ڈاٹ اے آئی' کے مطابق تھائی لینڈ اور جاپان میں اس ایپ کو کافی پذیرائی ملی اور وہاں بالترتیب اس کے لگ بھگ 74 لاکھ اور 50 لاکھ ڈاؤن لوڈز ہیں۔

اس ایپلی کیشن کو فروری میں امریکہ میں بغیر کسی بڑے ایونٹ کے متعارف کرایا گیا تھا۔ بعد ازاں میڈیا اداروں کی جانب سے اس پر توجہ دینا شروع کی گئی اور کچھ ٹک ٹاک انفلوئینسر نے اس کی تشہیر شروع کی۔

'ڈیٹا ڈاٹ اے آئی' کے مطابق دو اپریل تک امریکہ میں اس ایپ کو دو لاکھ 90 ہزار مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا گیا تھا۔ اس میں سے اکثریت نے اسے مارچ کے آخر میں ڈاؤن لوڈ کیا۔

لیمن 8 ایپل کے ایپ اسٹور پر سب سے زیادہ مقبول ایپس میں سے ایک بن گئی ہے۔

انفلوئینسر مارکیٹنگ فیکٹری میں سیلز کی نائب صدر نکلا بارٹولی کہتی ہیں کہ بائٹ ڈانس نے فروری کے آخر میں ان کی کمپنی سے رجوع کیا تھا اور اس ایپلی کیشن کے بارے میں ایک طویل پریزنٹیشن دی تھی اور بتایا تھا کہ انفلوئینسر اسے کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی نے تجویز دی ہے کہ انفلوئینسر اس ایپ کو آزمائیں لیکن وہ برینڈز کے ساتھ ایسا نہیں کر رہی کیوں کہ ابھی لیمن 8 کے صارفین نسبتاً کم ہیں۔

SEE ALSO: ٹک ٹاک کے پندرہ کروڑ امریکی صارفین؛ اس کے باوجود تنقید کی وجہ کیا ہے؟

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایپ زیادہ کامیاب ہوگی یا فلاپ ہو جائے گی۔

کری ایٹو ایجنسی میکانزم کے پارٹنر اور چیف سوشل آفیسر برینڈن گہان کہتےہیں کہ گزشتہ پانچ سال ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بھرے پڑے ہیں جنہیں بہت زیادہ مقبولیت ملی لیکن وہ آخر میں ختم ہوگئے۔

انہوں نے بی ریئل اور کلب ہاؤس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان پلیٹ فارمزنے گزشتہ دو سال میں بہت زیادہ توجہ حاصل کی لیکن پھر صارفین کی توجہ کہیں اور ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ سوشل ایپ کی کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے اور اسے برقرار رکھنا اور مشکل ہے۔

بائٹ ڈانس نے لیمن 8 کو آگے بڑھانے کے منصوبے سے متعلق جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے ایک سائبر سیکیورٹی کانفرنس میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کمپنی کے جنرل کونسل ایرچ انڈرسن نے کہا تھا کہ ہم لیمن 8 ایپ کے ساتھ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں تاکہ امریکی قانون پر عمل کرسکیں اور یقینی بنا سکیں کہ ہم یہاں صحیح کام کر رہے ہیں۔

لیکن ان کے بقول، " ہمیں اس ایپلی کیشن کے ساتھ چلنے کا ایک طویل راستہ مل گیا ہے اور یہ ابتدائی مرحلہ ہے۔"

ادھر بائٹ ڈانس کو امریکہ میں کچھ پوسٹس کے لیے چند ملازمین کی بھی تلاش ہے جو بیوٹی، فوڈ، ہیلتھ اور دیگر موضوعات پر انفلوئینسر کے ساتھ ایپ کی شراکت داری کو بڑھانے میں مدد کریں گے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔