|
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی طاقت کو پاکستان اور چین کے تعاون کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسلام آباد اور بیجنگ مل کر چین پاکستان راہداری 'سی پیک' کی ترقی اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے یہ بات جمعرات کو معمول کی میڈیا بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔
منگل کو خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے کی وجہ سے سی پیک منصوبوں کا مستقبل موضوعِ بحث ہے۔ حملے میں پانچ چینی انجینئرز سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیان نے بھی بدھ کو حملے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے اس واقعے کی تحقیقات مکمل کر کے ذمے داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں بھی بشام حملے کی مذمت کی گئی تھی۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت دیگر اعلٰی حکام شریک تھے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان سے پوچھا گیا کہ کون سا ملک یا تنظیمیں یا افراد اس حملے میں ملوث ہیں؟ تو انہوں نے بغیر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تحقیقات کے نتائج کا انتظار ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں چینی منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے شہریوں کو تواتر کے ساتھ سیکیورٹی کے خطرات لاحق رہے ہیں۔
پاکستان سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف کہتے ہیں کہ اس وقت چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا بڑا ملک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں کیوں کہ کسی بھی بیرونی سرمایہ کار ملک کے لیے اپنے شہریوں کی سیکیورٹی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ چینی شہریوں کا تحفظ بیجنگ کی اولین ترجیح ہو گی جسے یقینی بنانے کے لیے پاکستان پر دباؤ بھی بڑھے گا۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ چین کی طرف سے پاکستان میں سی پیک کے تحت توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور اب جو سرمایہ کاری پاکستان میں آنی ہے وہ چین کے نجی شعبے کی طرف سے آنی ہے۔
ہارون شریف کے بقول پاکستان کو بیرونی اور چینی سرمایہ کاروں اور یہاں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔ بصورتِ دیگر غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔
‘چین کی اولین ترجیح اپنے شہریوں کا تحفظ ہو گا'
ہارون شریف کہتے ہیں کہ اگرچہ چین پاکستان میں طویل مدت کے لیے سرمایہ کاری کے لیے پرعزم ہے لیکن فی الحال ان کی ترجیح اپنے شہریوں کاتحفظ ہو گی۔ اگر یہ خطرہ برقرار رہتا ہے تو نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان ایسے حملے روکنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ لہذا اسے پاکستان کی نیت پر شک نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چین کو پاکستان کی مشکلات کا بھی پتا ہے اور ان باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے چین پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری جاری رکھے گا۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ چین اپنے شہریوں کے لیے مزید سیکیورٹی کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ سیکیورٹی صورتِ حال کی وجہ سے سی پیک سے جڑے منصوبوں کی رفتار سست ہو سکتی ہے لیکن یہ منصوبے جاری رہیں گے۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ بیجنگ کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ چینی اہداف پر ہونے والے حملوں کی وجہ صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ یہ بعض عناصر کی طرف سے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو روکنے کی کوشش بھی ہے۔ لہذٰا اس حملے کی وجہ سے سی پیک پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔
بشام حملے کی ابھی تک کسی فرد یا تنظیم نے ذمے داری قبول نہیں کی۔ لیکن ماضی میں اس نوعیت کے حملوں کی ذمے داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) قبول کرتی رہی ہے۔
تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ پاکستان میں چینی شہریوں کو اس لیے ہدف بنایا جا رہا ہے کیوں کہ چین اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا بڑا ملک ہے۔
اُن کے بقول اسی لیے چینی اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ چینی سرمایہ کاری کی پاکستان میں حوصلہ شکنی ہو اور پاکستان میں ایک بحران پیدا ہو جائے۔
ظفر جسپال کہتے کہ چینی شہریوں پر ہونے والے حملے کی وجہ سے پاکستان پر دباؤ تو ہو گا۔ لیکن یہ ایسا دباؤ نہیں ہے جس کی وجہ سے تعلقات ٹوٹ جائیں یا ہر چیز رک جائے گی۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ اس واقعے کے سی پیک پر نہایت سنگین اثرات ہو سکتے ہیں کیوں کہ پاکستان چینی شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں بار بار ناکام ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول اگرچہ ان حملوں سے دنیا میں منفی پیغام گیا ہے اور یہ پاکستان کے لیے خفت کا باعث بنا ہے۔ لیکن اس سے پاکستان اور چین کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔
رسول بخش کہتے ہیں کہ چین پاکستان کے اندرونی سیکیورٹی اور امن و امان کے چیلنج سے آگاہ ہے اور چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کچھ خطرات ہو سکتے ہیں۔