پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر دستخط نہ کرنے سے متعلق بیان کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ اب ان ایکٹس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ خدا گواہ ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے کیوں کہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ دونوں بل مقررہ وقت کے اندر واپس ارسال کر دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔
یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کے تحت ملک کی سلامتی اور مفاد میں ملنے والی سرکاری معلومات کے غیر مجاز انکشاف پر پانچ برس تک سخت قید کی سزا دی جائے گی۔
پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف کسی بھی قسم کی معلومات سامنے لانے والے شخص کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسے میں یہ بحث جاری ہے کہ صدر کی منظوری کے بغیر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ قانون بن گئے ہیں اور کیا یہ قانونی تنازع حل ہو پائے گا۔
ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ یہ قانونی تنازع صدر علوی، ایوانِ صدر کے عملے اور وزارتِ قانون کی مشترکہ کوتاہی کا نتیجہ ہے جو کہ ملک کو آئینی بحران میں مبتلا کر سکتا ہے۔
'آئین میں واضح ہے کہ صدر کے دستخط نہ ہوں تو بل واپس جائے گا'
قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ صدر علوی کو اپنے اختلافی نوٹ کے ساتھ بل کو واپس بھجوانا چاہیے تھا جو کہ انہوں نے اس معاملے کو بظاہر اپنے عملے پر چھوڑ دیا جس کے باعث ابہام پیدا ہوا۔
تاہم حامد خان نے کہا کہ اس تنازع سے قطع نظر وہ واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث ایکٹ آف پارلیمنٹ یعنی قانون نہیں بنے۔
حامد خان کے بقول آئین میں واضح ہے کہ صدر دستخط نہیں کرتے تو بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جائے گا اور چوں کہ اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے لہذا اس بل کو دوبارہ قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کرنا ہو گا۔
حامد خان نے کہا کہ یہ قانونی معاملہ ہے جس کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ ہی کر سکے گی اور ان کی رائے میں دونوں طرف سے یہ معاملہ عدالت ہی جائے گا۔
ماہر قانون بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ صدر علوی اور نگراں حکومت دونوں جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ صدر نے بل پر دستخط نہیں کیے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ صدر علوی نے بل پر اختلافی نوٹ بھی نہیں لکھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اُصولی طور پر صدر علوی کے پاس دو راستے تھے کہ وہ بل کو منظور کرتے یا اختلافی نوٹ لکھ کر واپس پارلیمنٹ کو بھجوا دیتے۔ لیکن انہوں نے ان دونوں راستوں کے بجائے درمیانی راستہ اختیار کیا جس بنا پر ابہام پیدا ہو گیا ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر صدر علوی کی جانب سے کوئی غفلت بھی برتی گئی ہے تو بھی یہ بل قانون نہیں بنے۔
اُن کے بقول صدر کو یہ بل آرٹیکل 75 (1) کے تحت پیش کیے گئے جس میں یہ قید نہیں ہے کہ بل 10 دن کے بعد خود بخود قانون بن جائیں گے بلکہ وہ صورت آرٹیکل 75 (2) میں دی گئی ہے کہ جب صدر کے واپس بھجوانے پر مشترکہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد آنے کی صورت بل 10 روز میں خود بخود قانون بن جائیں گے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ قانونی مسائل عدالت کی طرف ہی جاتے ہیں اور اس معاملے کا بھی فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔