بھارت کی سیاسی جماعتوں نے اسرائیل پر غزہ کی عسکری تنظیم حماس کے حملے اور اس کے بعد اسرائیلی فورسز کی فضائی کارروائی پر ملا جلا ردِعمل ظاہر کیا ہے۔
ادھر بھارت میں اسرائیل کے سفیر ناؤر گیلون نے کہا ہے کہ ’ان کے ملک کو بھارت کی مضبوط حمایت کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ ایک بااثر ملک ہے اور دہشت گردی کے چیلنج کو جانتا اور بحران کو سمجھتا ہے۔‘
ان کے بقول ’اسرائیل صرف اخلاقی اور سیاسی حمایت چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین پر کیسے کام کرنا ہے۔ ہمارے پاس اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت ہونی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حماس کسی اور کو دوبارہ دھمکی نہ دے۔‘
وہ اتوار کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کر رہے تھے۔
ان کے بقول ’انہوں (حماس) نے اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا ہے تاکہ ان کے پیچھے چھپ سکیں اور خود کو مظلوم دکھا سکیں۔ اس لیے ہمیں بھارتی دوستوں کی مضبوط حمایت کی ضرورت ہو گی۔‘
اُنہوں نے بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم کو بھارت، وزیرِ اعظم،، بعض وزرا، بزنس مین اور سول سروینٹس کی جانب سے ملنے والی حمایت سے خوشی ہے۔'
Your browser doesn’t support HTML5
سیاسی پارٹیوں کا ردِعمل
قبل ازیں وزیر اعظم مودی نے ہفتے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں کی خبر سے شدید صدمہ پہنچا ہے۔ ہمارے خیالات اور دعائیں معصوم متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ ہم اس مشکل گھڑی میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کی اور کہا کہ ’اسرائیل کو آج جن حالات کا سامنا ہے بھارت 2004 سے 2014 کے درمیان ان سے گزر چکا ہے۔ نہ کبھی معاف کیا نہ ہی فراموش‘۔ ویڈیو میں اس دوران بھارت میں ہونے والے متعدد حملوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اصل اپوزیشن جماعت کانگریس نے حماس کے حملوں کی مذمت کی لیکن اس نے فلسطینی کاز کو اپنی روایتی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
پارٹی کے کمیونی کیشن انچارج اور سینئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’انڈین نیشنل کانگریس اسرائیل کے بے قصور شہریوں پر ہونے والے وحشیانہ حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔‘
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ’کانگریس کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ عزت نفس، مساوی سلوک اور باعزت زندگی کے لیے فلسطینی شہریوں کی جائز امنگوں کو اسرائیل کے جائز قومی سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے صرف مذاکرات کی مدد سے پورا کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی قسم کا تشدد کبھی بھی کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتا اور اسے روکنا چاہیے‘۔
بائیں بازو کی جماعتوں ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ماؤنواز‘ (سی پی آئی ایم) اور ’کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا‘ (سی پی آئی) نے مسئلے کے دو ریاستی حل پر زور دیا۔
سی پی ایم کی اعلیٰ فیصلہ ساز باڈی پولٹ بیورو نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل میں دائیں بازو کی نیتن یاہو حکومت فلسطینی زمینوں پر اندھادھند قبضہ کر رہی اور مغربی کنارے پر یہودی بستیاں بسا رہی ہے۔
رواں سال میں اب تک اس تنازعے سے پہلے 40 بچوں سمیت 248 فلسطینی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔‘
اس نے اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کو برقرار رکھے، ان کے لیے ایک وطن کی وکالت کرے اور فلسطینی زمینوں پر بقول اس کے غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کو ختم کرے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعت ’پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘ (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے حماس اسرائیل لڑائی اور جان و مال کے نقصان کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔
انھوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’برسوں سے بے قصور فلسطینی شہریوں کی ہلاکت اور ان کے مکانوں کی تباہی پرخاموشی برتی جا رہی ہے۔ آج جب دوسرے کو چوٹ لگی ہے تو نام نہاد جمہوریتیں مشتعل ہیں۔ مسئلہ فلسطین کو حل کیا جائے تاکہ امن قائم ہو‘۔
ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق بیت اللحم میں پھنسے ہوئے 200 بھارتی زائرین کو بذریعہ سڑک مصر کے راستے واپس لایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ بیت اللحم مسیحی زائرین اور سیاحوں کا مرکز ہے۔
’پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں کو نکالا جائے گا‘
خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کے مطابق اسرائیل میں 18 ہزار بھارتی شہری زیر تعلیم ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان کے کسی دشواری میں مبتلا ہونے کی کوئی رپورٹ نہیں ہے۔
قبل ازیں وزیر مملکت برائے خارجہ میناکشی لیکھی نے کہا کہ حکومت اسرائیل میں پھنسے ہوئے طلبہ کو واپس لائے گی۔
اُنہوں نے آندھرا پردیش کے وجے واڑہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم اور ان کا دفتر صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
تجزیہ کار اور مبصرین نے موجودہ صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل اسرائیل اور فلسطین کا دورہ کرنے والے سینئر صحافی اور خبر رساں ادارے یونائٹڈ نیوز آف انڈیا (UNI) کے اردو شعبے کے سابق ایڈیٹر عبد السلام عاصم کا کہنا ہے کہ اگر فریقین کی منزل امن ہے تو ان کو دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہ امن کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ فریقین کو مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ بات سمجھنا ہو گی کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
ان کے بقول حماس اور اسرائیل دونوں کو اپنے عوام کے مفاد کی فکر کرنا چاہیے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ تو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اسرائیلی عوام کے۔
ان کے بقول تشدد کے راستے سے مسئلے کا حل ڈھونڈنا کم از کم آج کے ترقی یافتہ عہد سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں۔ آلِ ابراہیم اب قبائلی عہد میں نہیں جی رہے ہیں کہ ہر فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی کیا جائے۔
’انڈو عرب سینٹر‘ نئی دہلی کے بانی ڈائرکٹر اور سابق سفیر ذکر الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حماس نے اسرائیل کی حکومت اور فورسز کی کارروائیوں کے سبب یہ حملہ کیا ہے جس کو وہ جائز سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق مذاکرات سے ہی مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے لیکن مذاکرات کا سلسلہ تو بند ہے۔
ان کے خیال میں حماس یرغمال شدہ اسرائلی شہریوں کے عوض اسرائیل سے سودا کریں گے کہ آپ ان کو لے جائیے اور ہمارے قیدیوں کو چھوڑ دیں۔
ان کے مطابق اس وقت ہزاروں فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان روزانہ جھڑپیں ہو رہی ہیں، لوگ مارے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی موجودہ حکومت بیت المقدس میں دراندازی کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ غالباً اس سے مجبور ہو کر حماس نے یہ کارروائی کی ہے۔
بھارت کا مؤقف
یاد رہے کہ آزادی کے بعد کے عشروں میں فلسطین کے بارے میں بھارت کا مؤقف عالم عرب، ناوابستہ تحریک اور اقوامِ متحدہ کے مؤقف کے مطابق رہا ہے۔
بھارت نے ستمبر 1950 میں اسرائیل کو تسلیم کیا۔ 1953 میں اسرائیل کو ممبئی میں اپنا قونصلیٹ کھولنے کی اجازت دی گئی۔
بھارت نے 1975 میں ’پیلسٹائن لبریشن أرگنائزیشن‘ (پی ایل او) کو تسلیم کیا۔ سابق وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے فلسطینی جدوجہد کی حمایت کی۔ سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی نے بھی سابقہ پالیسی کو برقرار رکھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سال 1991 سے 1996 کے دوران جب کہ نرسمہا راؤ بھارت کے وزیر اعظم تھے، بھارت کی پالیسی میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ 1999 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کارگل جنگ کے دوران بھارت اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورِ حکومت میں اور اس کے بعد یہ تعلقات مزید مضبوط ہوتے چلے گئے۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد باہمی رشتوں کو اور استحکام حاصل ہوا۔
انھوں نے 2017 میں اسرائیل کا دورہ کیا جو کہ کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا اسرائیلی دورہ تھا۔